ِ
دنیا میں بہت سی ایسے مقامات ہیں جو کسی زمانے میں موت اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ جہاں کئی سو سال بوجود اس کی فضاوں میں موت کی سنسناہٹ موجد ہے۔جہاں اب بھی لوگ جانے سے ڈرتے ہیں۔ایسی ہی ایک جگہ سوبی بار ہے۔سوبی بور ایک جرمن نازی کیمپ تھا جسے ہٹلر نےآپریشن رین ہارڈ کے ایک حصے کے طور پر بنایا اور چلایا تھا ۔ یہ علاقہ اس وقت کے مقبوضہ پولینڈ کےنوآباد یاتی علاقے میں سوبی بورریلوے اسٹیشن کے ساتھ جنگل میں واقع تھا ۔اور آج کل پولینڈ کے صوبہ لبلن کا حصہ ہے۔
سوبی بور کا کیمپ ہٹلر نے مارچ 1942 میں بنایا تھا اور یہ مئی 1942 سے لے کر اکتوبر 1943 تک آپریشنل رہا اور اس مدت کے دوران ڈھائ لاکھ کے لگ بھگ انسانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں سے اکثریت پولینڈ کے یہودیوں کی تھی۔ قیدیوں کو مارنے کے لئے ابتدا میں یہاں 3 گیس چیمبر بنائے گئے تھے اور جیسے جیسے قیدیوں کی تعداد بڑھتی گئ گیس چیمبرز کی تعداد 6 کر د ی گئ۔ یہ کیمپ بہت عرصے تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہاتاکہ دینا ہٹلر کے مظالم سے لاعلم رہے۔
قیدیوں کو ٹرینوں میں بھر بھر کر لایا جاتا تھا اور پھر ان کو بہلا پھسلا کر اس بات کا پتہ لگایا جاتاتھا کہ کونسا قیدی ہنر مند ہے۔ تمام کار آمد قیدیوں کو الگ کر لیا جا تا تھا اور ان سے کیمپ کے روز مرہ کے معاملات چلانے کے لئے کام لئے جاتے تھے۔ باقی قیدیوں الگ کر لیا جاتا تھا اور انکو برہنہ کرکے گیس چیمبرز میں پھینک دیا جاتا تھا اور موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔مرنے والوں میں ہر عمر کے مرد عورت اور بچے شامل تھے۔
کیمپ سے فرار ناممکن تھا کیمپ کی دیواریں بہت اونچی اور خاردار تاروں سے لیس تھیں اور کیمپ کے ارد گرد بارودی سرنگوں کا جال تھا ۔اگرکوئ قیدی کیمپ سے باہر جانے میں کامیاب ہو بھی جاتا تھا تو وہ بارودی سرنگوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ جو قیدی بھاگنے کی کوشش کرتااسے بے دردی سے قتل کر کے نشان عبرت بنادیا جاتا تھا تاکہ کوئ اور ایسی جرات نا کر سکے۔
کیمپ میں مظالم کا سلسلہ اکتوبر 1943 تک چلتا رہا جو ایک کامیاب بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوا۔قیدیوں کی بغاوت کا بھی ایک قابل ذکر واقعہ ہے جو 14 اکتوبر 1943 کوپیش آیا ۔بغاوت کا منصوبہ دو قیدیوں الیگزنڈر پیچر اورلیون فیلڈ ہنڈلر نے تیار کیا اور دوسرے قیدیوں کو بھی شامل کیا۔ پلان کے مطابق قیدیوں نے افسران اور محافظوں کو ایک ایک کرکے قتل کیا اور جب قیدی گیٹ کی طرف بھاگے تو گیٹ اور دیوار پر موجود محافظوں نے فائرنگ کردی اور بہت سے قیدی مر گئے۔ کچھ گیٹ سے گذر کر بارودی سرنگوں کا شکار ہو گئے ۔ اس کے باوجود 600 میں سے 300 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اورکافی قیدی جنگ ختم ہونے تک زندہ رہے اور دنیا کو ہٹلر کے ظلم کی داستان سنائ۔ اس بغاوت کے بعد اس کیمپ کو بند کر دیا گیا اور اس کے گرد دیودار کے درخت لگا دیئے گئے۔
آج کل وہاںایک میوزیم موجود ہے جہاںسوبی بور کے مظالم سے جڑی چیزیں موجود ہیں اور لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں۔
1 Comments
Gooe one
ReplyDelete