کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چو ٹی ہے اور گلگت بلتستان میں پاکستان اور چائنہ کے بارڈر پر واقع ہے ۔ اسکی اونچائی
سطح سمندر سے آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہے۔ کے ٹو کو سر کرنا ماونٹ ایورسٹ سے زیادہ مشکل ہے اور یہاں
اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔
کے ٹو کو پہلی باراکتیس جولائی انیس سو چون میں ایک اٹالین کو پیما لینو اور آشیلز نے سر کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی
بہت سارے لوگوں نے اسے سر کرنے کی کوشش کی پر ناکام رہے۔
جون دو ہزار اٹھارہ تک تین سو ستاسٹھ لوگوں نے اس چو ٹی کو سر کیا اور اس دوران اکانوے لوگ کے ٹو کی چوٹی کو سر
کرتے اپنی جان گنوا بیٹھے۔زیادہ تر مہمات موسم گرما اور بہار میں کی گئیں کیونکہ موسم سرما میں وہاں موسم بہت
شدید اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
موسم سرما میں کے ٹو پر درجہ حرارت منفی چھہتر فارن ہائٹ تک گر جاتا ہے اورسرد ہوا دو سو کلومیٹر کی رفتار سے چلتی
ہے اور منوں سامان اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھنا بہت مشکل کام ہے ۔ کے ٹو سر کرنے کو لئے ہر سال سیکڑوں مہم جو کوہ پیما
طویل سفر کر کے دنیا کے مختلف ملکوں سے پاکستان آتے ہیں اور ہر کو ہ پیماچاہتا ہے کہ وہ کامیابی حاصل کرے اور اپنا
اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔
جنوری دو ہزار اکیس میں دنیا کے نامی گرامی کوہ پیماوں نے موسم سرما میں کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کا سوچا
اور پاکستان کی طرف رخت سفر باندھا۔ ایک طرح سے یہ موت کا سفر ہے کیونکہ اس موسم میں مہم جوئی میں جان
جانے کےامکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پر شائید ایسے سر پھرے اس دنیا میں موجود ہیں جو جان کی بازی لگا کر
کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں۔
ایسی ہی ایک ٹیم نیپال سے آئی جس نے کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کی ٹھانی اور اس نیپال کی ٹیم نے موسم سرما
میں دنیا کی دوسرے بلند ترین چوٹی کو سر کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
نرمل پرجا ، مینگما ڈیوڈ ، مینگما ٹینزی اور منگما گالجے نامی کوہ پیماوں پر مشتمل ٹیم نے آج سولہ جنوری کودنیاکی دوسری
بلند ترین چوٹی پر پہنچے اور وہاں اپنا پرچم بلند کیا اور ایک نئے ریکارڈ کی بنیاد رکھی۔
0 Comments