محمد علی سدپارہ 2 فروری 1976) کو سکردو کے گاوں سدپارہ میں پید ہوئے۔ آپ ایک پاکستانی کوہ پیما ہیں۔
آپکی شادی فاطمہ سدپارہ کے ساتھ ہوئی اور آپ کے تین بچے ہیں۔
آپ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے نانگا پربت پر سنہ 2016 میں پہلی بار موسم سرما میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اس کے دونوں ساتھی ، الیکس ٹیکسیکن اور سائمون مورونے کہاتھا کہ وہ سدپارہ کی مہارگ کے بغیر یہ کام
نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے ایک کیلنڈر سال میں کامیابی کے ساتھ چار آٹھ ہزاربلند چوٹیاں سر کیں اور
اپنے کیریئر کے دوران کل آٹھ ایسی چوٹیاں کامیابی سے سر کیں جو کی بلندی آٹھ ہزار سے بلند ہے۔
محمد علی سد پارہ نے بطور پورٹر اپنا کیریئر شروع کیا اور چند روپوں کی خاطر آپ کو ہ پیماوں کا سامان اٹھا کر
پہاڑوں پر جاتے تھے اور پھر ایک دن آپ نے سوچا کی کیوں نہ میں بھی پہاڑ کی چوٹی سر کروں اور پھر دنیا
نے دیکھا کے آپ نے بے شمار مہمات سر کیں۔اور کے ٹو سر کرنے والی ٹیمیں آپ کو اپنا ہمراہی بنانے میں
فخر محسوس کرتی تھیں۔ محمد علی سدپارہ کا 20 سالہ بیٹے ساجد سدپارہ نے بھی 2019 میں دنیا کی دوسری بلند
ترین چوٹی کے ٹو سر کی تھی۔
فروری 2021 کو انہوں نے ایک ٹیم کے ساتھ سردیوں میں کے ٹو 2 کو سر کرنے کے لئے ایک مہم شروع
کی۔انکا بیٹا بھی اس مہم میں انکے ساتھ شامل تھا۔ یہ ٹیم بوٹل نیک تک پہنچے وہاں سے ساجد کو تکنیکی خرابی
کے باعث واپس آنا پڑا۔ جبکہ اس کے والد ، جان سنوری اور چلی کے جان پابلو مہر اوپر چڑھتے رہے ،اور یہ
آخری موقع تھا جب ساجد نے اپنے والد کو ٹیم کع دیگرممبران کے ساتھ دیکھا۔ پروگرام کے مطابق وہ رات
گئے واپس نہیں آئے۔ اس کے بعد سے محمد علی سدپارہ اور جان سنوری اور جان پابلو سے رابطے میں نہیں
ہیں۔فوج کے دو ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ایک ریسکیو مشن کا انعقاد 6 فروری کو کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ
تینوں کوہ پیما ابھی بھی لاپتہ ہیں اوراتنے دن لاپتہ رہنے اور رسیکیو آپریشن میں ناکامی پر سرکاری سطح پر انکو
مردہ تصور کر لیا گیا ہے۔ اور شائید مستقبل میں کسی کوہ پیما ٹیم کو انکی باقیات مل جائیں۔
عوامی اور حکومتی سطح پر انکی خدمات کو بہت سراہا گیا ہے اور علی سد پارہ دنیا اور پاکستان کے عوام کے دل میں
ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
0 Comments