Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

محبت اور منافقت کی داستان



یار منگائی بہت بڑھ  گئی ہے پٹرول ڈھائی سو روپے لیٹرہو گیا ہے۔ گھی چھ سوروپے کلو ہو گیا  ہے۔ بقر عید بھی سر پر ہے
 
اور جانوروں کی قیمیتں آسمان پر ہیں فاروق نے لنچ بریک کے دوران ٹفن سے کھانا نکالتے ہوئی بھڑاس نکالی۔  جی سر
 
 جب سے چور حکومت آئی ہے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ خالد جس کا جھکاو اپوزیشن پارٹی کی طرف تھا  فورا لقمہ
 
 دیا۔ حکومتی پارٹی کے حمایتی ایک صاحب بولے پرانی حکومت کی کرپشن کی وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔
 
حافظ نعمان صاحب جو ان سب کے باس تھے  بولے پوری حکومت اور اپوزیشن کرپٹ اور چور ہے اور یہ ملک کبھی
 
بھی ترقی نہیں کر سکتا۔  آفس میں ایک سے دو بجے تک لنچ اور نماز کی بریک ہوتی تھی اور لنچ کرتے ہوئے مہنگائی
 
 سیاست اور کرپشن  گفتگو  کا محور ہوتےتھے۔ اسی دوران چپڑاسی نے اطلاع دی کے باہر دو سائل کب سے انتظار کر
 
رہے ہیں۔ حافظ صاحب نے  گھڑی کی طرف نظر ڈالی تو دو بج رہے تھے ۔ حافظ صاحب نے اپنا خالی ٹفن اٹھا کر سائیڈ 
 
پر رکھا دراز میں سے ٹوپی نکالی اور نماز پڑھنے چل پڑے اور سائلین کو انتظار کرنے کا کہا۔ آخر نماز سے افضل تو کوئی
 
 چیز نہیں۔۔ نماز پڑھ کر واپس آئے تو ڈھائی بج گئے تھے دروازے پر چند سائلیں کو بیٹھے دیکھا جو جانے کب سے 
 
انتظار کر رہے تھے۔ اپنے کیبن میں پہنچ کر چپڑاسی کو حکم دیا کہ سائلین کو بھیجا جائے۔ 

 
پانچ منٹ کے بعد کمرے میں دو دیہاتی آدمی اندر داخل ہوئے حافظ صاحب نے ان پر ایک خاص نظر ڈالی گویا انکی
 
 مالی حیثیت کا اندازہ کر رہے ہوں۔  سائل نے آگے بڑھ کر فائل حافظ صاحب کے سامنے رکھی  اور عرض کی کہ انکا
 
 مسئلہ حل کر دیا جائے۔ حافظ صاحب نے فائل دیکھی  بلکل جائز کام تھا اور فائل بلکل مکمل تھی کہ اچانک حافظ
 
 صاحب کو یاد آ گیا کہ بقر عید آنے والی ہے۔ قربانی بھی کرنی اور بیگم بچوں کو شاپنگ بھی کروانی ہے۔ 
 
 حافظ صاحب نے  فائل پر چند جملے لکھے اور سائل سے کہا کہ اس فائل میں بہت سے کاغزات کم ہیں اور کام نہیں
 
 ہو سکتا۔ سائل نے منت سماجت کی تو حافظ صاحب نے  ادھر ادھر دیکھا سائل کو قریب بلایا اور کہا  بیس ہزار روپے 
 
لگیں گے آج ہی کام ہو جائے گا اور پیسے افسران بالا کو دینے ہیں تاکہ فائل کی منظوری ہو سکے۔  تھوڑی منت سماجت 
 
اور بھاو تاو کے بعد پندرہ ہزار پر بات طے ہوئی اور سائل نے فائل میں پندرہ ہزار روپے رکھ کر حافظ صاحب کے
 
 حوالےکر دیے اور دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔
 
 
آفس ٹائم کے بعد جونہی حافظ صاحب گھر جانے کے لئے باہر نکلے توگاڑی کے پچھلے ٹائر میں ہوا بہت 
 
کم تھی۔ بہت پریشان ہوئے۔ اور آہستہ آہستی گاڑی کو قریبی پنکچر شاپ کی طرف لے کر چل پڑے۔

مستری شبیر دکان میں پڑی چارپائی پر لیٹا موبائل ہر کوئی بیہودہ ویڈیو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا کہ آج کل
 
 کام کافی مندہ ہے صبح سے بونی بھی نہیں کی اوپر سے عید بھی آنے والی ہے اللہ کرے کوئی اچھا گاہک مل جائے۔ 
 
تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب کی گاڑی ورکشاپ کے سامنے رکی۔ مستری شبیر گاڑی کی طرف لپکا اور فورا اسکی نظر
 
 پنکچر ٹائر پر پڑی اور دل کی خوشی اسکے چہرے سے ظاہر ہونے لگی۔ حافظ صاحب کو اسنے پنکھے کے سامنے کرسی
 
 پر بٹھایا اور خود ٹائر کھولنے لگ گیا۔ ٹائر میں بس ایک کیل لگی تھی اور ایک ہی  جگہ سے پنکچر تھا پر مندے اور عید کی
 
 آمد کے پیش نظر مستری شبیر نے حافذ صاحب کو بری خبر سنائی کے چونکہ  پنکچر کی حالت میں گاڑی دور سے چلا
 
 کر لائے ہیں اس لئے پانچ عدد پنکچر ہیں۔ گرمی سے ستائے حافظ صاحب نے مستری سے کہا کہ جلد از جلد پنکچر
 
 لگادے۔ پندرہ منٹ بعد گاڑی تیار تھی حافظ صاحن  مستری شبیر کو سات سو روپے پنکچر لگانے کے دیئے اور جلدی
 
 سے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

ٹریفک سارجنٹ  ظفر گرمی سے تنگ سڑک کے کنارے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ جمعے کی وجہ سے ٹریفک بہت کم 
 
تھی کہ اسکے موبائل کی گھنٹی بجی۔ بیگم کا نمبر دیکھتے ہی اسنے ناگوار سا منہ بنا کر کال اٹھا لی۔ آتے ہوئے مرغی کا گوشت
 
 دہی اور سبزیاں لیتے آنا اور قربانی کے لئے کوئی جانور بھی دیکھ لو پھر چور دکاندار بہت مہنگائی کر دیں گے بیگم نے نان
 
 سٹاپ فرمائشوں کی فہرست جاری کردی۔ ظفر نے اچھا کہ کر فون بند کردیا۔ دل ہی دل میں سوچا کہ بیگم ٹھیک
 
 کہ رہی ہے عید کی وجہ سے ناجائز منافع خور دکاندار چیزوں کے نرخ بڑھا دیتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں۔

حافظ صاحب جلدی جلدی گھر کی طرف روانہ تھے۔ ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے گاڑی کی سپیڈ بھی زیادہ تھی 
 
اور تیزی میں ٹریفک سگنل پر بریک لگانا بھول گئے اور جب پتہ چلا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود ظفر
 
 نے فورا آگے بڑھ کر حافظ صاحب کو روک لیا اور گاڑی کو سائیڈ پر لگا لیا۔ حافظ صاحب نے منت سماجت کی پر
 
 جب بات نہ بنی تو پھر  تین سو روپے نے سارے مسئلے حل کر دیئے اور حافظ صاحب گھر کی طرف
 
 روانہ ہو گئے۔
 
شہناز بیگم گھر پر حافظ صاحب کا انتظار کر رہی تھیں اور سوچ رہی تھی کہ عید آنے والی ہے  گھر کا راشن لانے والا 
 
ہے اورعید کے لئے اسنے برانڈ سے نیا سوٹ بھی خریدنا تھا اورپارلر بھی جانا ہے۔ اللہ کرے حافظ صاحب کا موڈ اچھا
 
 ہو کچھ پیسے مل جائیں۔ جونہی مغرب کی نماز ہوئی حافظ  صاحب گھر پہنچ گئے اور اندر آتے ہی بیگم نے
 
 فرمائشوں کی فہرست تھما دی۔ حافظ صاحب نے دس ہزار روپے شہناز بیگم کے ہاتھ پر رکھے اورخود وضو کر کے نماز
 
 پڑھنے چلے گئے۔جتنی  بھی تھکن ہوحافظ صاحب نماز نہیں چھوڑتے۔ شہناز بیگم نے چمکتی آنکھوں سے پیسے
 
کو دیکھا اور اسمیں سے دو ہزارروپے نکال کر کچن میں ایک خفیہ ڈبے میں منتقل کر دئے۔
 
نبیل بستر پر لیٹا فلم دیکھ رہا تھا اور ساتھ دوستوں کے ساتھ واٹس ایپ گروپ پر عید منانے کی پلاننگ کر رہا تھا ۔
 
 اس بار سب کا پلان مری جانے کا تھا پر اسے پتہ تھا کے اس کے ابا اسکو پیسے نہیں دیں گے۔ اسی پریشانی میں اسکی ماں
 
 شہناز بیگم نے اندر داخل ہوئیں اور اسکو آٹھ ہزاراور راشن کی فہرست تھما دی اور حکم صادر کیا کہ ابھی ابھی جائے 
 
اور سب سامان خرید لائے۔
 
 
حاجی بشیر کریانے والے کی آج کل پانچوں گھی میں تھیں۔  عید کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ گھی مصالحے اور چاول 
 
خرید  رہے تھے۔ عید کے پیش نظر حاجی صاحب نے جو مال سستے داموں خرید کر زخیرہ کر رکھا تھا اسکو دکان پر
 
لے آئے اوراللہ پاک سے برکت کی دعا کی۔ اشیا کے نرخ بھی عید کی مناسبت سے دس فیصد خود ہی بڑھا دیئے کیونکہ 
 
عید آنےوالی تھی اور اس بار حاجی صاحب کا پلان تھا کہ اونٹ کی قربانی کی جائے۔ 
 
نبیل حاجی بشیر  کی دکان میں داخل ہوا۔ حاجی بشیر کے بیٹے کے ساتھ نبیل کے اچے مراسم تھے۔  سامان کی فہرست 
 
حوالے کر کے نبیل بنچ پر بیٹھ کر چائے پینے لگ گیا اور پٹرول کی قیمت بڑھنے پر حکومت کی کرپشن پر سیاست دانوں 
 
کو گالیاں دینے لگ  گیا۔ اسی دوران سامان پیک ہو گیا۔ بل  میں سے پانچ سو نبیل نے اپنی جیب میں ڈالے اور  سامان
 
 لے کرگھر کیطرف روانہ ہو گیا۔
 
 
 
اس کہانی کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بحثیت قوم ہم بہت بدیانت اور منافق  ہیں۔ دنیا میں تہواروں پر سیل لگائی جاتی ہے
 
  لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں تہورا بس پیسہ بنانے کا زریعہ بن گئے ہیں ۔ ہر انسان  اپنے
 
 دائرے میں کسی نہ کسی طرح  مالی فوائد حاصل کرنےکی کوشش کرتا ہے اور رحمتوں کو ٹھکرا دیتا ہے۔ آج کل بقر عید
 
 کا زمانہ ہے۔ جانور کی خریداری سے لے کر قصائیوں سے لے کر قیمہ کروانے تک ہر شخص ایک دوسرے کو
 
 قربان کرنےمیں لگا ہوا ہے،۔ اللہ پاک ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔
 
  
 
     

Post a Comment

0 Comments