Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ڈرامہ تیرے بن تنقید کی زد میں۔ نا ظرین نا خوش

ایک وقت تھا جب پاکستان ڈرامے اپنی کہانی اداکاری اور معیار کی بنا پر دنیا بھر میں ایک پہچان رکھتے تھے اور ہر ڈرامے کا کوئی نا کوئی مقصد اور 

معاشرے کی اصلاح ہوتا تھا۔ آج کال کے ڈرامے کا ان تمام عناصر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور واحد مقصد ریٹنگ اور  ویوز حاصل کرنا

  ہے چاہے اسکے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔

 

ڈرامہ تیرے بن اگرچہ عوام میں خاصہ مقبول ہے اور یو ٹیوب پر بھی اسکے ویوز ملینز میں ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ڈرامہ تنقید کی ضد میں

 بھی ہے ۔   ٹام این جیری ٹائپ اس ڈرامے کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر پر شائید پبلک ایسے ہی ڈرامے دیکھنا چاہتی ہیں۔   بلا وجہ  بڑھائی جانے والی

 اقساط میں ذومعنی ڈائیلاگ اور رومینٹک سین سے بھرپور اس ڈرامے میں روشن خیالی کو ہٹ دھرمی ،بد تمیزی اور رشتوں کی بے قدری

 کے طور پردکھایا  جا رہا ہے۔ ڈرامے کے تمام کرداراگرچہ پڑھے لکھے مگر انہتائی منفی، خود غرض  اور جہالت سے بھرے نظر آتے  ہیں اور

 رائٹر ان تمام کرداروں کو مظلوم ثابت کرکے پبلک کی آنکھوں میں آنسو لانے کی کوششوں میں ہے۔

 

اس ڈرامے کی کہانی سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو والدین اپنی اولاد کو روشن خیالی ، تعلیم اور خود اعتمادی دیتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں ۔ 

 

ڈرامہ چار خواتین کے گرد گھومتا ہے جو چاروں کی چاروں  یہ ثابت کرنے میں لگی ہیں کہ عورت نا قابل اعتبار اور ناقص العقل اور ضدی اور

 خود غرض ہے۔ میرب ایک جاگیردار خاندان کی بیٹی جس کی پرورش شہر کے ماحول میں ایک روشن خیال گھرانے میں ہوتی جہاں بیٹی کی

 تربیت روایتی طریقے سے ہٹ کر کی جاتی ہے۔ بیٹیوں کو تعلیم دینا اور روشن خیال بنانا بہت اچھی روایت ہے مگر ڈرامے میں  میرب کو اکھڑ،

 بولڈ اور خود مختار لڑکی دکھایا گیا ہے جس کے لئے ہر فیصلہ اور ہر رشتہ ایک ضد ہے جسے وہ فخر سے اپنی تربیت کے ساتھ جوڑتی ہے۔

 مریم ایک جاگیر دار گھرانے کی  بیٹی ہے اور جہاں عزت اور غیرت سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں اور وہیں وہ لڑکی اپنے دشمن کے بیٹے کے

 ساتھ نا صرف افیئر چلاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ گھر سے بھاگ بھی جاتی ہے اور پھرسونے پر سہاگہ یہ رائٹر اس حرکت کا دفاع کرکے اسکو

 مظلوم ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور مرتسم ایک عزت دار جاگیر دار گھرانے کا غیر مند نوجوان جو بات بات پر پستول نکال لیتا ہے بڑے

 آرام سے جا کر اپنی بہن کو واپس لے کر آ تا ہے ۔ ڈرامے کا ایک کردار حیا کا ہے جو ہر وقت مر تسم کو رجھانے اور بہکانے میں مصروف

 رہتی ہے اور اسے پانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش میں ہے ۔ عورت عورت کی دشمن ہے یہ اس ڈرامے میں بار بار دکھانے

 کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ڈرامے کا چوتھا  کردار سلمہ بیگم کا ہے جو کہ میرب کو کسی طرح قبول کرنے کو تیار نہیں اور اپنی ضد انا اور لالچ

 کے حصار میں گم ہے۔ اس ڈرامے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے عورت ناقص العقل ہے اور اسکو  نہ تو تعلیم بدل سکتی ہے ،

 نہ آ زادی ، نہ ہی ماں باپ کی پر اعتماد تربیت اور نہ ہی بے حد محبت کرنے والا شوہر ، اور نہ ہی معاشرے میں ایک معزز خاندان کی بڑی بہو 

ہونا اور حقوق کے نام پر باپ ، شوہر اور خاندان کی عزت سے کھلواڑ کرنا  اسکا جمہوری حق ہے۔

 

میرب ایک پڑھی لکھی روشن خیال سمجھدار لڑکی ایک وعدے کی بنا پر اپنی نند کو گھر سے فرار کرا دیتی ہے اور کسی کو خبر نہیں ہونے دیتی

 کہ کہیں وعدہ نہ ٹو ٹ جائے اور سارے خاندان کی عزت ایک وعدے پر قربان کر دیتی ہے ا اور پھر کوشش بھی کی جارہی ہے کہ میرب کو 

مظلوم اوراسکے عمل کو درست دکھایا جائے۔

 

  ڈرامے کے ہیرو مرتسم کا کردار بھی الگ طریقے سے پیش کیا گیا ہے ۔ ایک ضدی اور جنونی شخص جس پر تعلیم نے کوئی خاص فرق نہیں 

ڈالا اور وہ ہر فیصلہ مائی فیوڈل لارڈز کی طرز پر  کرتا ہے ۔ اسکی بیوی کو دشمن اغوا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جواب میں ان کے 

خاندان کی بے قصور  عورت کا مطالبہ کر ڈالتا ہے ۔ پھر تاوان میں عورت وصول کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مرد سے اس کی شادی کراتا ہے ،

 جو انتہائی ظالمانہ حرکت ہے  مگر رائٹر اسکو جرات مندی اور بہادری سے تعبیر کر رہا ہے ۔ مطلب ظلم اور بہادری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ 

انور ایک ایسا باپ جو خدا کی دی گئی رحمت کو ٹھکرا کے اسے دوسرے کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ رائٹر اس کردار کو بھی مظلوم پیش کرنے کی 

کوشش میں ہے۔

 

ملک زبیر ایک پڑھا لکھا جاہل جاگیردار جو اپنے مقاصد کے لئے دشمن کی خواتین کو استعمال کرتا ہے۔ اور دشمنی میں کسی بھی حد تک جا

 سکتا ہے جہاں اسکو اپنے باپ اور خاندان کی عزت اور وقار کی بھی کوئی پروا نہیں۔

 

وقاص جو ایک دوست کی بیٹی کو پالتا ہے اور اسے روشن خیال بناتا ہے اور شہر میں رکھ کر اسکیی تعلیم و تربیت کرتا ہے اور روشن خیالی

 کا مطلب یہ ہے کہ میرب کچھ بھی کرنے میں آزاد ہے بس وہ اپنے باپ کو بتا دے۔میرب اپنی نند کے اسکے عاشق کے ساتھ بھگا دیتی ہے مگر

 وقاص نے جس طرح میرب کا دفاع کیا اسکا جواب نہیں ملتا اوراسے ستارہ امتیاز کے لئے نامزد کیا جانا چاہیے۔


ڈرامہ پیسہ کمانے اور ویوز لینے کے چکر میں ہمارے ڈرامے بس گلیمر اور واہیات  ڈائیلاگ اور فوٹو گرافی  پر ہی توجہ دیتے ہیں اوراس کے 

معاشرے پر کیا اثرات ہونگے اسکی فکر کسی کو نہیں ہے۔

 

عبداللہ کادوانی شوبز کی بہت بڑی شخصیت ہیں۔ ڈراموں سے بہت پیسہ کمایا ہو گا پر کبھی کبھی آپ کو معاشرے کو کچھ لوٹانا بھی پڑتا ہے۔ آپکے

 ڈرامے لوگ شوق سے دیکھتے ہیں اور انکے معاشرے پر بہت دور رس نتائج بھی ہوتے ہیں تو کوشش کریں گلیمر کی بجائے ایسے ڈرامے

 بنائیں جو نئی نسل پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہو۔ پیسہ تو سب یہاں رہ جانا ہے کچھ ایسا کر جائیں کے لوگ آپ کو یاد کریں۔  جیسے اتنے 

سال گزرنے کے بعد بھی لوگ آج بھی تنہایاں اور حسینہ معین کو نہیں بھولے۔ 



Post a Comment

1 Comments

  1. itna fazoool drama ha tere bin. here waqt romance n fight

    ReplyDelete