Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا


   منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا    

بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا


  رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی

    خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا


     کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے

   مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا                


  جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے

میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا


      جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر

آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا


  عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ

  جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا


جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ

سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا

Post a Comment

0 Comments