Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ایک ڈاکٹر اور بیچارہ پاکستانی مریض


چند دن سے سرمیں  درد محسوس ہو رہا تھا۔ محلے کے ڈاکٹر کو چیک کرایا اور پانچ سو روزانہ کے حساب سے تین دن دوا لی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔
 
کسی نے کہا کسی اچھے فزیشن کو چیک کرائیں۔دوست احباب سے مشورہ کے بعد ایک اچھے فزیشن کا پتہ چلا ۔ اگلے دن ہسپتال پہنچ گیا۔  کاونٹر پر
 
 پرچی بنوانے کے لئے پہلے فرعون نما انسان  سے رابطہ ہوا۔ ریٹ لسٹ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ  نارمل چیک اپ کی فیس 2500 روپے ہے اور اگر
 
 ارجنٹ چیک کروانا ہے تو فیس  5000 ہوگی۔ شرافت سے 2500 روپے ادا کرکے پرچی بنوائی اور پھر ڈاکٹر صاحب کے دروازے پر فرعون 
 
کے ایک دوسرے بھائی سے ملاقات ہوئی ۔ موصوف ڈاکٹر کے باس معلوم ہو رہے تھے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر کے دروازے کے نگہبان ہیں۔
 
باہر مریضوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ میں دل ہی دل میں ڈاکٹر صاحب کی روزانہ کی آمدن کا حساب لگانے لگا۔دو گھنٹے انتظار کے بعد باری آئی اور
 
 ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں جانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب کسی دوائیوں کی کمپنی کے نمائندے کے ساتھ گپ شپ لگا رہے تھے اور مجھے ڈاکٹر
 
 صاحب کافی خوش اخلاق لگے۔ کمرے کا سرسری سا جائزہ لیا تو ڈاکٹرصاحب کے سائیڈ ٹیبل پر پیزے کے باکس پڑے ہوئے تھے۔ اور ایک بینچ پر
 
 ادویات کے ڈھیروں سمپل تھے۔ شائید ادویات کے نمائندے ڈاکٹر صاحب نے پیش کئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے گلے میں لٹکے سٹیٹھو سکوپ

 سے لے کربال پوائنٹ ، وال کلاک،  بلڈ پریشر چیک کرنے والے آلے حتی کہ انکے کمرے میں موجود واٹر ڈسپنسر پر بھی کسی نہ کسی ادویات کی
 
 کمپنی کا نام موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ نمائندے چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب میری طرف متوجہ ہوئے۔ انکی خوبصورت اور با اخلاق مسکراہٹ پتہ
 
 نہیں کہاں چلی گئی۔  مجھ سے بڑے سرد لہجے میں دریافت کیا  کہ کیا مسئلہ ہے آپ کو۔ بتایا جناب کافی دن سے سر میں شدید درد ہے۔ دو تین مزید
 
سوالات کے بعد ڈاکٹر صاحب نے پریشان لہجے میں کہا کہ کچھ ٹیسٹ کرانا ضروری ہیں اسکے بعد ہی پتہ چل سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ ٹیسٹ
 
 اپنے لیٹر پیڈ پر درج کئے اور ساتھ ہی ایک شہر کی ایک مشہور لیبارٹری بھی تجویز کی کیونکہ بقول انکے پورے شہر میں اس  لیبارٹری کے 
 
رزلٹ سب سے بہتر ہیں۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے احسان کرتے ہوئے لیبارٹری کا  ایڈریس بھی بتا دیا۔
 
ہسپتال سے باہر آتے ہی لیبارٹری کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ کافی تلاش کے بعد لیبارٹری ملی  اندر کاونٹر پر مریضوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ باری
 
 آنے پر نسخہ دکھایا  تو تمام ٹیسٹ کی قیمت 7800روپے بتائی گئی۔ جیب میں موجودہ رقم نہ ہونے کے باعث چپ چاپ باہر آگیا۔
 
ایک دوست کو کال کی جو کہ طب کے شعبے سے منسلک تھا اس نے ایک لیبارٹری کا پتہ بتایا جہاں پر وہ تمام ٹیسٹ 3000 روپے میں ہو گئے۔
 
دل میں خیال آیا کہ جنہوں نے 3000 میں ٹیسٹ کئے انہوں نے بھی یقینی طور پر کچھ نہ کچھ کمایا ہوگا تو جو ٹیسٹ  7500 روپے میں کر رہے تھے
 
 ان کی کمائی کتنی ہوگی۔ کیونکہ آج کل تمام ٹیسٹ کمپیوٹرائزڈ مشینوں پر ہو رہے ہیں اور ڈاکٹر کا کسی جگہ کوئی کمال نہیں۔
 
اگلے دن رپورٹس لے کر پھر ڈاکٹر صاحب کے در پر حاضر ہوا۔ دوبارہ سے پھر لائن میں لگنے کے دو گھنٹے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے شرف ملاقات
 
 کا موقع ملا۔ رپورٹس دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب کے چہرے  پر ناگواریت سے چھا گئی۔ یہ آپ نے کسی دوسری لیبارٹری ٹیسٹ کرا لیے۔ سر انکی قیمت
 
 بہت زیادہ تھی۔ اور یہ تو عام ٹیسٹ ہیں کہیں سے بھی کرائے جا سکتے۔ میں نے صفائی پیش کی۔خیر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا پریشانی کی کوئی بات
 
 نہیں  چند ادویات لکھ کر دے رہا ہوں  پندرہ دن استعمال کرنے کے بعد پھر چیک کرائیں۔ دوائیوں کی پرچی تھامے ڈاکٹر صاحب کے کمرے
 
 سے نکلا۔ سوچا گھر کے پاس والے اپنے دوست کےمیڈیکل سٹور سے دوا لے لوں گا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ ادویات اس بیچارے کے سٹور پر
 
 موجود  ہی نہیں۔ دوا کی تلاش میں تین چار اور میڈیکل سٹور چھانے پر دوا نہیں ملی۔ آخری میڈیکل سٹور والے نے  احسان کرتے ہوئے بتایا کہ
 
 جس ہسپتال میں چیک کرایا وہاں موجود میڈیکل سٹور سے پتہ کریں۔ دس کلو میٹر بائیک چلا کر پھر ہسپتال پہنچا تو تمام ادویات بااسانی دستیاب
 
 تھیں۔ میڈیکل سٹور والے کو دعا دیتے ہوئے گھر واپس آ گیا۔
 
پندرہ دن کے بعد دوبارہ ڈاکٹر صاحب کو چیک کرانے گیا تو پتہ  چلا فیس 3000ہو گئی ہے کیونکہ ڈالر کی قیت بڑھ گئی ہے اور مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔
 
جب آپ یہ کہانی پڑھیں گے تو یقینا آپ کو محسوس ہگا کہ یہ تو آپ کی اپنی کہانی ہے۔ یہ معاملات سب پاکستانیوں کے ساتھ کبھی نہ کبھی ضرور
 
 رونما ہوئے ہونگے۔  ہمارے طب کے شعبے میں ڈاکٹر اور لیبارٹریوں کی آمدن کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ طب خدمت خلق کا شعبہ ہے جو کہ
 
ہمارے ڈاکٹر صاحبان نے  کاروبار بنا لیا ہے۔ اپنی من پسند لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانا اور کمیشن حاصل کرنا، من پسند کمپنوں کی ادویات
 
 تجویز کرنااور اس کے عوض تحائف اور فارن ٹورز کرنا اور چند لمحوں کے چیک اپ کی ہزاروں روپے فیس وصول کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔
 
   حکومت کو طب کے شعبے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ان افراد کی آمدن کا اندازہ لگا کر اور انکو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔  

Post a Comment

0 Comments