سارہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، "آپ کے بال بھی آپکی انکھوں کی طرح خوبصورت ہیں۔ بوڑھی عورت نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر کو بھی میری آنکھیں اور بال بہت پسند ہیں۔ تم جانتی ہو،آج میرے شوہر مجھے لینے آرہے ہیں۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ ہماری شادی کو 40 سال ہو چکے ہیں، اور پھر بھی وہ ہر روز میری تعریف کرتے ہے۔ آج میں نے اس کی پسندیدہ سویٹ ڈش بھی تیار کی ہے۔ یہ اُس کے لیے کتنی خوشگوار حیرت کی بات ہوگی!‘‘ بوڑھی عورت نے تقریباً ایک ہی سانس میں جواب دیا۔
سارہ کو ایک خوشی کا احساس ہوا۔ اسے اس طرح کی جگہ پر اس طرح کی محبت اور عزم کا مشاہدہ کرنے کی توقع نہیں تھی۔
تبھی ایک نرس بوڑھی خاتون کو دوائیاں دینے آ گئی۔ خاتون کو ڈاکٹر کے چیمبر میں لے جانے کے بعد، وہ کچھ کاغذات لینے واپس آئی۔ پریشان ہو کر سارہ نے اس سے خاتون اور اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔
سارہ نے جو کچھ سنا اس نے اسے دہلا دیا۔ بوڑھی خاتون الزائمر کی مریضہ تھی اور تین سال قبل اپنے شوہر کو ایک مہلک کار حادثے میں کھو چکی تھی۔ اسے موقع سے بچا کر اس اولڈ ایج ہوم میں لایا گیا اور اس دن کے بعد سے وہ کپڑے پہن کر کسی ایسے شخص کا انتظار کرتی ہے جو کبھی واپس نہ آئے گا۔ لیکن اس کا دل اسکی امید کبھی نہیں ہاری۔ اس کا شوہر اس کی یادوں میں رہتا تھا، اس کی رہنمائی کرتا تھا، اور اسے ہر روز زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا تھا۔ شائید اسی کا نام محبت ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔
0 Comments