اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
احمد فراز
💓💓💓💓💓💓💓💓
یہ بھی پڑھیں
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
💖💖💖
سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے
💖💖💖
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
💖💖💖
منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
💖💖💖
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
💖💖💖
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
💖💖💖
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
مزید شعرا کا کلام پڑھیں
0 Comments