Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ماونٹ ایورسٹ پر مرنے والوں کی لاشوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کے ٹو پر ڈیڈ باڈی

 


 کوہ پیمائی دنیا کے مہم جو افراد کا مقبول ترین مشغلہ ہے اور ہر سال ہزاروں کو ہ پیما دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے

 کے لئے دوردراز کا سفر کرتے ہیں اور اپنی جان داو پر لگا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنی کامیابیوں کاجھنڈا گاڑتے ہیں۔

 یہ ایک بہت مہنگا مشغلہ ہے اوراسکے لئے مہنگے ترین لباس جوتے اور دیگر سازو سامان کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر

 بڑی کمپنیاں ان کوہ پیماوں کو سپانسر بھی کرتی ہیں۔ دنیا میں بے شمار چوٹیاں ہیں اورماونٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین

 چوٹی ہے ۔ اسکی بلندی سطح سمندر سے آٹھ ہزار آٹھ سو انچاس میٹرہے۔ یہ کو ہ ہمالیہ کے سلسلہ میں نیپال اور چائنہ کی

 سرحد پر واقع ہے۔

ہر سال سیکڑوں افراد ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کرنے کے لئے نیپال کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے تقریبا

 ایک فیصد کو پیما موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کرنے والے افراد 

کی شرح میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں خواتین کوہ پیماوں کی شرکت میں بھی کافی اضافہ دیکھا گیا 

ہے اور بہت سے خواتین نے بھی ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کیا ہے۔

   پہلی بار ماونٹ ایورسٹ کو انتیس مئی انیس سو ترپن میں ایڈمنڈ ہلرے اور ٹینزنگ نارگے نے سر کیا تھا۔ اور تب سے

 اب تک سینکڑوں کوہ پیما ماونٹ ایورسٹ کامیابی سے سر کر چکے ہیں۔

 ماونٹ ایورسٹ کے بارے میں ایک خوفناک حقیقت یہ ہے کہ ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے ایک فیصد افراد 

موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی باقیات وہیں رہ جاتی ہیں کیونکہ موسمی حالات اور بلندی کے باعث وہاں

 سےلاشوں کو نیچے لانا ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔اکثر اوقات یہ باقیات مہم جوئی پر جانےوالے

 افراد کے لئے راستے کی نشاندہی کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ایک بار ایک کوہ پیما کی موت ہو گئی تو اسکے سبز بوٹ 

انیس سو چھیانوے سے لے کر دو ہزار چودہ تک  تک راستے کی نشاندہی کے لئے استعمال ہوتے رہے یہاں تک کہ 

اسکی لاش برف میں بلکل دب گئی یا کسی کو پیما نے اسکی باقیات کو دفن کر دیا۔ ماونٹ ایورسٹ کی اکثر جگہوں پر

 مرنے والےکوہ پیماوں کی باقیات موجود ہیں۔ان سب ڈر خوف اور شدید موسم اور کٹھن راستے کے باوجود دنیا بھر

 کے کوہ پیما ماونٹ ایورسٹ کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے کئی واپس اپنے گھر نہیں جا پاتے۔

 حال ہی میں پاکستان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرتے ہوئے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور دو

 دوسرے کوہ پیما سر موسم میں کے ٹو کو سر کرتے ہوئے لا پتا ہو گئے تھے جن کی تلاش کے لئے دو ہفتے تک ریسکیو 

آپریشن جاری رہا اورپاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے خطرناک اونچائی تک انکو تلاش کی کوشش کی اور تمام 

کوششوں کی ناکای کے بعد  آخر کار انکو حکومتی سطح پر مردہ قراد دے دیا گیا ہے۔ شائید آنے والے دنوں میں جب 

موسم بدلے گا تو شائید مہم پر جانے والی ٹیموں کو انکی باقیات مل جائیں یہ شائید وہ برف کے ساتھ ہی کے ٹو کی چٹانوں 

اور تاریخ کا حصہ بن گئے ہوں

 

Post a Comment

0 Comments