Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دسمبر پر شاعری، دسمبر پر غزل، دسمبر پر نظم،دسمبر کی شام شاعری, poertry on december, december and romance


december poertry

دسمبر کا مہینہ سال کا آخری مہینہ ہے جو سردیوں کی آمد کا اعلان کرتا ہے۔ اس مہینے کی ٹھنڈی ہوائیں، چاندنی راتیں اور یخ بستہ موسم ایک خاص رومانی ماحول تخلیق کرتے ہیں۔ دسمبر نہ صرف قدرتی خوبصورتی کا حامل ہے، بلکہ یہ شاعری اور رومانی کی دنیا میں بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ مہینہ محبت، جذبات اور ان احساسات کا عکاس ہوتا ہے جو انسانوں کے دلوں میں گہرے تاثرات چھوڑتے ہیں۔

دسمبر کی راتیں جب سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تب جسم اور دل دونوں ایک دوسرے کی قربت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ سرد ہوا اور چاندنی راتیں، ایک الگ ہی جذباتی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ جب سردی کی شدت بڑھتی ہے، انسانوں کے درمیان قربت کی خواہش بڑھتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب محبت بھرے تعلقات اور رومانی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ دسمبر کی راتیں اکثر ایک خواب کی طرح ہوتی ہیں، جو دلوں میں پیار کی چمک پیدا کرتی ہیں۔

دسمبر کا مہینہ شاعری کے لیے بھی ایک اہم موضوع ہے۔ شاعری میں دسمبر کی ٹھنڈی راتیں، برف باری، یخ بستہ ہوا اور دلوں کی دھڑکنوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ شاعروں کے لیے دسمبر ایک ایسا موسم ہے جس میں وہ اپنی محبتوں، غموں اور یادوں کو بیان کرنے کا ایک نیا زاویہ پاتے ہیں۔

پاکستانی اور ہندوستانی شاعری میں دسمبر کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ غالب کی شاعری میں ٹھنڈی ہوا اور برف کے موسم کو اظہارِ محبت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ شاعری میں دسمبر کا موسم اکثر انسان کی تنہائی اور اکیلے پن کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، جہاں سردی اور خاموشی کے درمیان دل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ لمحے جب انسان اپنے اندر کی دنیا میں غم اور خوشی کا سامنا کرتا ہے، دسمبر کی راتوں میں شاعروں کے قلم کا رخ زیادہ تر ان ہی جذبات کی طرف مڑتا ہے۔


دسمبر کا مہینہ شاعروں کی آنکھوں میں ایک خاص منظر بناتا ہے۔ یہ منظر ٹوٹے ہوئے خوابوں، یادوں اور محبت کی کہانیوں کا عکاس ہوتا ہے۔ بہت سی نظمیں اور غزلیں دسمبر کے موسم میں لکھنے کا آغاز کرتی ہیں۔ ان اشعار میں برف کی سفید تہہ، یخ بستہ ہوا، اور ٹوٹتے ہوئے ستارے ایک علامت بن جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب آنے، محبتوں کے اظہار، اور گمشدہ وقت کو واپس پانے کا پیغام دیتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے مشہور شعراء نے دسمبر کے موسم کو مختلف طریقوں سے اپنی شاعری میں شامل کیا ہے۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز اور میرا جی جیسے عظیم شعراء نے دسمبر کی ٹھنڈی راتوں، برف کی چمک اور رات کی خاموشی کو اپنی غزلوں کا حصہ بنایا ہے۔ ان شاعروں کی غزلوں میں دسمبر کی راتیں اور اس میں چھپے ہوئے جذبات کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ دسمبر کا مہینہ جہاں قدرتی طور پر سرد ہوتا ہے، وہیں یہ رومانی اور شاعری کی دنیا میں بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس مہینے کی سرد ہوائیں، چاندنی راتیں، اور برف باری ایک ایسی فضاء پیدا کرتی ہیں جس میں محبت اور رومانی کے جذبات عروج پر پہنچتے ہیں۔ شاعری میں دسمبر کے موسم کا ذکر نہ صرف موسم کی تبدیلی کو بیان کرتا ہے، بلکہ یہ انسانی جذبات، یادوں اور محبت کی گہرائیوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

اس لیے دسمبر کا مہینہ نہ صرف سردی کا موسم ہے، بلکہ یہ ایک ایسا وقت بھی ہے جب انسان اپنے پیاروں کے ساتھ رشتہ مزید گہرا کرتا ہے اور شاعری میں اپنی جذباتی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔

دسمبر کے بارے میں شاعری

 

دسمبر کی سردی ہے اسکے ہی جیسی

ذرا سا جو چھو لوں تو بدن کانپ جاتا ہے

چلے آؤ دوبارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کرو کچھ تو اشارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کئی مدت سے کوئی اطلاع بھی آئی نہ تیری
نہ خط آیا تمھارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

کل کریں گے تم پہ شاعری دسمبر
نومبر کی یہ رات آخری ہے


دسمبر چل پڑا گھر سے
سنا ہے پہنچنے کو ہے

 

ارادہ تھا جی لوں گا  رجھ سے بچھڑ کر

گذرتا نہیں اک دسمبر اکیلے

پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکتا

کاسہ دل کہاں سنبھال پائے گا بخشش تمہاری
ارے محبتوں کا عادی تھا، اور تم سرد دسمبر کی طرح

 

جہاں رشتوں کی فصلوں کی حسد سے آبیاری ہو
نگر کی اُن زمینوں سے دسمبر روٹھ جاتا ہے

 

ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر

 

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر

 

ہر دسمبر اس وحشت میں گذرتا ہے کہ کہیں

پھر سے آنکھوں میں تیرے خواب نہ  آنے لگ جائیں۔

 

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر

 

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

 

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر

 

دِسَمبر اَب کے آؤ تو مُجھے بھی ساتھ لے جانا
مُجھے بھی شام ہونا ہے مُجھے بھی گُمنام ہونا ہے

لوٹ آؤ کہ… ابھی بھی کچھ نہیں بِگڑا
ابھی بھی ایک رات باقی ہے نومبر کی!!

 

بتائو تو ذرا کونسی بہار لے آیا جنوری
تم سب کہتے تھے نا بہت ویران ہے دسمبر

 

دینے آئی ھےمیرے درد کی قیمت مجھکو
کتنی ہمدرد ہے یہ دسمبر کی پہلی بارش

 

وقت نہیں رکھتا کسی کے انتظار میں
ایسے ڈھلتے ہیں مہینے سال میں

 

میرے دل میں دسمبر جم گیا ہے۔
پگھل کر سال بھر بہتا رہے گا

 

کسی کا جون کبھی ختم ہی نہیں ہوتا
کسی کے پاس دسمبر قیام کرتا ہے۔

 

بارہ گھنٹوں کی ہے ایک رات جو ٹلتی ہی نہیں
ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھے

 

سفیدی آگئی بالوں میں پھر بھی تیری آمد پر
لباسِ غم اُتارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

کبھی قسمت سے چمکے گا دلوں کے آسمانوں پر
تیرے ملنے کا تارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

کبھی بادل کو اُوڑھے چاند نکلے یاد آجائے
رُخِ تاباں تمھارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

مراسم برف میں دبنے نہ پائیں

پاس آو دسمبر آ رہا ہے

 

 اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا سالِ گُزشتہ میں
جو تیرے بن گزارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

ہوائیں سرد چلتی ہیں تو مجھ کو یاد آتا ہے
سمندر کا کنارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

یہ جاں لیوا دُکھوں کے سانپ ڈستے رہتے ہیں مجھ کو
مداوا ہو خُدارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

کئی مدت سے کوئی اطلاع بھی آئی نہ تیری
نہ خط آیا تمھارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے

 

مزید پڑھیں

بارش پر شاعری

موسم پر شاعری

پاکستانی ڈراموں کے او ایس ٹی

Post a Comment

0 Comments