دسمبر 16 کی صبح دوسرے دنوں کی طرح ایک عام سی صبح تھی۔ فجر کے بعد مائیں اپنے بچوں کے لئے ناشتہ بنا رہی تھیں انکے لئے لنچ پیک کر رہی تھیں۔ کچھ بچے ابھی تک گرم بسترو ں میں سو رہے تھے اور بار بار کی آوازیں بھی انہیں اٹھا نہیں رہیں تھیں شائید یہ اس گھر اس بستر پر انکی آخری صبح تھی۔ سکول کی پرنسپل طاہر قاضی صاحبہ بھی ناشتے کے میز پر آج کے دن کی مصروفیات کو سوچ رہی تھیں انکو نہیں پتہ تھا کہ آج کا ناشتہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو گا اور آج وہ شہادت کے بہت بڑے مرتبے پر فائز ہونے جارہی ہیں۔
دسمبر 16، 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دن کا آغاز معمول ک مطابق ہوا۔ تمام طلبا اپنی اپنی کلاسز میں پیڑیڈز لینے میں مصروف تھے۔ کابفرنس ہال میں کوئی پروگرام بھی چل رہا تھا کہ اچانک چند بد بخت دہشت گرد سکول کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے بچوں اور اساتذہ پر فائرنگ شروع کر دی اور بہت سے بچوں اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا ۔ بہت سے طلبا اور اساتذہ نے مختلف کمروں اور باتھ روم میں چھپ کرجان بچائی۔ فائرنگ کی آوازوں سے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ سکول پر حملہ ہوا ہے اور بچوں کے والدین پریشانی کے عالم میں سکول کی طرف دوڑے۔ ایک عجیب سی ہنگامی حالت تھی۔ والدین اپنے بچوں کی خیریت کو لے کر شدید پریشان اور غم زدہ تھے۔ حملہ کئی گھنٹے تک جاری رہا جس میں 140 سے زائد افراد شہید ہو گئے، جن میں زیادہ تر طلبہ تھے۔ جی ہاں دہشت گردی کا شکار ہونے والے نھنے شہید۔ جنت کے پھول۔
حملے کی منصوبہ بندی
آرمی پبلک سکول پر حملہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک گروپ نے کیا تھا۔ اس گروپ نے حملے کی مکمل منصوبہ بندی کی تھی اور اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے انتہائی ظلم و تشدد کا سہارا لیا۔ ان شدت پسندوں کا مقصد حکومت پاکستان کو ایک پیغام دینا اور اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔
حملے کا آغاز
دسمبر 16 کی صبح، جب سکول میں روزانہ کی طرح کلاسز شروع ہو چکی تھیں، طالبان کے چھ دہشت گرد سکول کے احاطے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے سکول کی سیکیورٹی کو فوری طور پر قابو میں لے لیا اور طالب علموں، اساتذہ اور عملے کو یرغمال بنا لیا۔ دہشت گردوں کے پاس خودکار ہتھیار، دستی بم، اور دیگر جنگی سامان تھا۔
دہشت گردوں کا حملہ
یہ دہشت گرد سکول کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور بچوں پر گولیوں کی بارش شروع کر دی۔ ان کا مقصد بے گناہ بچوں کی زندگیوں کو تباہ کرنا تھا۔ ان حملہ آوروں نے سکول کے آٹھ مختلف حصوں میں کارروائیاں کیں اور ان جگہوں پر موجود طلبہ اور اساتذہ کو قتل کیا۔ شدت پسندوں کا یہ حملہ تقریباََ آٹھ گھنٹے تک جاری رہا۔
فوج کی کارروائی
پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر سکول پر حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے آپریشن شروع کیا۔ اس دوران کئی فوجی جوان اور عملے کے افراد بھی زخمی ہوئے، لیکن بالآخر فوج نے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا اور یرغمالیوں کو آزاد کر لیا۔
جانی نقصان
اس حملے میں 140 سے زائد افراد کی جانیں گئیں جن میں 132 بچے شامل تھے۔ باقی افراد میں اساتذہ اور سکول کا عملہ شامل تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کے لیے ایک زبردست دھچکا تھا اور پوری قوم سوگوار ہو گئی۔
بین الاقوامی ردعمل
اس سانحے کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اس حملے پر بین الاقوامی سطح پر اظہار افسوس کیا گیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے اس حملے کی مذمت کی اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
قومی ردعمل
پاکستانی حکومت اور عوام نے اس حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں شروع کیں۔ پاکستان کی فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بڑے آپریشنز شروع کیے اور سیکیورٹی میں بہتری لانے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ حکومت نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید شدت لانے کا عزم کیا۔
متاثرہ خاندانوں کی حالت
اس سانحے نے متاثرہ خاندانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ سینکڑوں بچے، جنہوں نے اس دن سکول میں اپنی جانیں گنوائیں، ان کے والدین اور دیگر عزیزوں پر اس واقعے کا گہرا اثر پڑا۔ یہ سانحہ نہ صرف پشاور بلکہ پورے پاکستان کی اجتماعی یاد میں ایک سنگین اور دردناک واقعہ بن گیا۔
نتیجہ اور اثرات
آرمی پبلک سکول حملے نے پاکستان کی سیاست، سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ حکومت اور فوج کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شدت آئی، اور پورے ملک میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید مستحکم کیا گیا۔ اس سانحے نے نہ صرف پاکستانیوں کو ایک نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت کا احساس دلایا بلکہ اس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف اتحاد کو بھی فروغ دیا۔
دسمبر 16 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا، اور اس سانحے نے پورے ملک کو دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط عزم کی طرف گامزن کیا۔
0 Comments