یکم مارچ 1992 کی شام تھی پاکستانی ڈریسنگ روم کا ماحول بہت سوگوار تھا۔ پاکستان انگلینڈ کے خلاف صرف 74 رنز پر آوٹ ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز سے شکست کھا چکا تھا اور دوسرے میچ میں پاکستان نے کمزور ٹیم زمبابوے کو شکست دی تھی۔ شائید اس بری پرفارمنس کے بعد پاکستان کا ورلڈ کپ کا سفر ختم ہونے کو تھا کہ کپتان عمران خان ڈریسنگ روم میں آئے۔ سب کھلاڑی سر جھکائے بیٹھے تھے۔ میچ کی بری کارکردگی کسی سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ڈرسنگ روم میں مکمل سناٹا تھا کہ اچانک عمران خان کی آواز آئی لڑکو ہم ورلڈ کپ جیتیں گے۔ سب نے سر اٹھا کر عمران خان کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر بلا کا اعتماد تھا۔ ہاں ہم ورلڈ کپ جیت کر جائیں گے۔ بس جان لگا دینی ہے میچ میں۔ اگر ہم 74 رنز پر آوٹ ہو سکتے ہیں تو ہم آوٹ کر بھی سکتے ہیں۔ ڈریسنگ روم کا ماحول ایک دم سے بدل گیا۔ تمام کھلاڑی جو کچھ دیر پہلے بے دلی سے بیٹھے ہوئے تھے ایک دم سے نئے جذبے کا ساتھ میچ میں جانے کے لئے تیار تھے۔ شائید اللہ کو کپتان کی ہمت پسند آ گئی۔ کپتان نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔اور پھر قسمت کی دیوی پاکستان پر مہربان ہوگئی اور بارش شروع ہو گئ اور اتنی بارش ہوئی کہ میچ شروع نہیں ہو سکا اور پاکستان اور انگلینڈ کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا جس نے پاکستان کے لئے سیمی فائنل کا راستہ ہموار کیا۔
پر شائید امتحان ابھی باقی تھے۔ چوتھے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو شکست دی اور پاکستان کا ورلڈ کپ میں سفر ڈگمگانے لگا۔اس میچ میں جاوید میاں داد اور بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے کی نوک جھونک آج تک لوگوں کو یاد ہے۔
شکست خوردہ ٹیم پھر اپنے ورلڈ کپ کے مستقبل سے پریشان تھی پر کپتان عمران خان اس وقت بھی پورے عظم کے ساتھ اپنی بات پر قائم تھے کہ ہم ورلڈ کپ جیتیں گے۔
پانچواں میچ ساوتھ افریقہ کے ساتھ تھا۔ ساوتھ افریقہ نے سات وکٹوں کے نقصان پر 211 رنز بنائے۔ جب پاکستان نے بیٹنگ شروع کی تو بارش شروع ہو گئی اور ڈکورڈلوئس نظام کے تحت پاکستان کو 36 اوورس میں 196 رنز کا ٹارگٹ ملا مگر پاکستان صرف 176 رنز بنا سکا اور تمام ٹیم آوٹ ہو گئی ۔ اس میچ میں شکست کے بعد پاکستان کا ورلڈ کپ کا سفر ختم ہی لگ رہا تھا۔ عوام میں شدید مایوسی تھی اور غم و غصہ تھا۔
چھٹا میچ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تھا۔ اور دونوں کے لئے ڈو اور ڈائی میچ تھا ۔ اس میچ سے قبل عمران خان نے تمام کھلاڑیوں کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ ہم ورلڈ کپ ضرور جیتیں گے اور سب سے وعدہ لیا کہ ہم سب اب بس جیتنے کے لئے گراونڈ میں اتریں گے اور پھر پاکستان نے واپسی کا راستہ نہیں دیکھا۔ اس میچ میں پاکستان نے نو وکٹوں کے نقصان پر 220 رنز بنائے اور آسٹریلیا کی پوری ٹیم 172 رنز بنا کر آوٹ ہو گئی اور پاکستان کو دو قیمتی پوائنٹ مل گئے۔ اس میچ میں عاقب جاوید اور مشتاق احمد نے تین تین کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ جبکہ وسیم اکرم اور عمران نے دو دو کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ رمیز راجا نے اس میچ میں 76 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔ اور پاکستان ورلڈ کپ کی جیت کے سفر پر چل پڑا۔
پاکستان نے اپنا ساتواں میچ 15 مارچ کو سری لنکا کے خلاف کھیلا ۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 212 رنز بنائے اور پاکستان نے یہ ٹارگٹ چھ وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ پاکستان اب سیمی فائنل کھیلنے کے قریب تھا کہ پاکستان کے لئے ایک اور پریشانی سامنے آ گئی۔
پاکستان نے اپنا آٹھوں میچ 18 مارچ کونیوزی لینڈ کے خلاف کھیلنا تھا۔ نیوزی لینڈ اس ٹورنامنٹ میں اب تک ناقابل شکست رہی تھی۔ میچ سے ایک دن پہلے انضمام الحق بیمار ہو گئے اور انہوں نے عمران خان سے کہا وہ نہیں کھیل پائیں گے۔ عمران خان نے کہا مجھے کوئی پروا نہیں تم بیمار ہو یا نہیں تم یہ میچ ضرور کھیلو گے اورانضمام اس میچ میں ایک چوکے کے ساتھ صرف پانچ رنز بنا کر آوٹ ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم جو اس ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست تھی صرف 166 رنز بنا کر آوٹ ہوگئی۔وسیم اکرم نے اس میچ میں چار اہم وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں پاکستان نے یہ میچ آسانی سے تین وکٹوں کے نقصان پر جیت لیا اور رمیز راجا نے 119 رنز کی شاندار ناقبل شکست اننگ کھیلی اور اس فتح کے ساتھ ہی پاکستان نے سیمی فائنل کے لئے کولیفائی کر لیا۔ اور پاکستان کو سیمی فائنل بھی نیوزی لینڈ کے ساتھ تھا، پاکستان کے لئے بہت اہم اور خوبصورت لمحہ تھا۔ عمران خان کی بات سچ ہونے جا رہی تھی کہ ہم یہ ورلڈ کپ جیتیں گے۔
سیمی فائنل کھیلنے کے لئے آک لینڈ جاتے ہوئے جہاز میں انضمام الحق کی سیٹ عمران خان کے ساتھ تھی۔ انضمام میچ میں اپنی بری پرفارمنس پر نروس تھے۔ کہ اچانک عمران خان بولے انضی تم نے میچ میں جو چوکا لگایا وہ بہت شاندار تھا اور شائید تم ہی وہ چوکا لگا سکتے تھے۔ یہ سن کر انضمام الحق کا خوف ختم ہو گیا اور ایک خود اعتمادی پیدا ہوئی جسکا شاندار مظاہرہ انہوں نے سیمی فائنل میں اپنی شاندار اننگ سے کیا۔
پہلا سیمی فائنل پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 21 مارچ کو آک لینڈ میں کھیلا گیا۔ نیوزی لینڈ نے سات وکٹوں کے نقصان پر 262 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ پاکستانی ٹیم میں پریشانی چھا گئی ۔ یہ ٹوٹل نا ممکن لگ رہا تھا اور پاکستان کا آغاز بھی کچھ اچھا نہیں تھا۔پاکستان کی ٹیم نے 36 اوور میں 136 رنز بنائے اور پاکستان کو جیتنے کے لئے 14 اوورز میں 136 رنز بنانے تھے جو نا ممکن لگ رہے تھے۔ اس وقت انضمام الحق کریز پر آئے اور انہوں نے 37 بالوں پر 60 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر پاکستان کی جیت کو یقینی بنا دیا اور پھر پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی۔ اور کپتان کی بات سچ ہونے جا رہی تھی۔
اور پھر 25 مارچ 1992 بد ھ کا تاریخی دن آ گیا جب پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ورلڈ کپ کا فائنل ہونے والا تھا،اس دن ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی تھی جس نے آنے والے سالوں میں پاکستان کی معاشرتی اور سیاسی معاملات پر بے حد گہرے اثرات چھوڑے اور آج بھی ہم لوگ اس فتح کے سرور سے سرشار ہیں اور اس فتح نے عمران خان کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے راستے بنائے۔
ساری پاکستانی قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھی۔میچ پاکستانی وقت کے مطابق پانچ بجے صبح شروع ہوا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے اوپنر جلد ہی آوٹ ہو گئے اور پھر کپتان عمران خان نے آگے بڑھ کر خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور جاوید میانداد کے ساتھ مل کر سکور کو چالیسویں اوور میں 163 تک پہنچا دیا اور پھر انضمام الحق نے وسیم اکرم کے ساتھ مل کر سکور کو 249 ٹک پہنچا دیا جو کہ ایک اچھا سکور تھا۔ جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 227 رنز بنا کر آوٹ ہو گئ اور وہ لمحہ آ گیا جب رمیز راجہ نے عمران خان کی گیند پر رچرڈ کا کیچ پکڑ کر پاکستان کی فتح کا جشن منایا۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا مگر لوگ سڑکوں پر نقل آئے ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں قوم کو اتنا خوش نہیں دیکھا۔ دعا ہے کہ اللہ میرے وطن کو مزید ایسی کامیابیاں عنایت کرےآمین۔ پاکستان زندہ باد
0 Comments