جنسی زیادتی اور پاکستان ۔ ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو روح تک کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ والدین اپنی بچیوں کو سکول پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں اور شائید یہ سوچ کر کہ سکول کا پرنسپل باریش اور نیک انسان نظر آتا ہے مگر شائید انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس بظاہر نیک نظر آنے والے انسان کے اندر ایک جنسی درندہ چھپا ہوا ہے جو ناصرف معصوم بچیوں کے ساتھ اپنی گندی جنسی خواہشات پوری کر رہا ہے بلکہ ان ویڈیوز کو ڈارک ویب پر بیچ کر پیسے بھی کما رہا ہے۔
ایسا ہی ایک واقع ضلع شیخوپور کے سکول میں پیش آیا۔شیخوپورہ کے علاقے مرزا ورکاں میں ایک سکول پرنسپل کو متعدد اساتذہ اور طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس پر متاثرین کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد سامنے آیا۔ویڈیوز سامنے آنے کے بعد بی ڈویژن تھانے کی پولیس نے طلباء کی شکایت پر چھاپہ مار کر ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
پولیس نے ملزم کے قبضے سے کم از کم 150 فحش ویڈیوز برآمد کیں، جن کی شناخت ارسلان کے نام سے ہوئی، جو نور الہدیٰ اسکول کے پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم پرنسپل متاثرین کو بلیک میل کرتا تھا اور ان کی ویڈیوز وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔
پولیس نے ملزم کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی ہے، جس نے تفتیش کے دوران متاثرین کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف کیا۔
ملزم نے سی سی ٹی وی اور خفیہ کیمروں سے جرائم کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے بیرون ممالک میں آن لائن فروخت کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ اس سے پہلے کراچی کے ایک سکول کا سکینڈل بھی سامنے آچکا ہے۔
دریں اثناء چیف ایجوکیشن آفیسر نے سکولوں کو سیل کر دیا کیونکہ پولیس نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے لیے حکومت، تعلیمی ادارے، میڈیا، اور معاشرتی سطح پر یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو سخت سزائیں ملیں، متاثرین کو فوری انصاف فراہم کیا جائے، اور معاشرتی رویوں کو بہتر بنایا جائے۔ جنسی تعلیم اور آگاہی کو اسکولوں اور کمیونٹیز میں فروغ دینا، پولیس اور عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کرنا، اور میڈیا کو اس مسئلے پر حساس اور ذمہ دار رپورٹنگ کرنے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔
0 Comments