Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

نازیہ حسن ایک عہد ساز شخصیت



نازیہ حسن، "کوئین آف ساؤتھ ایشین پاپ" ایک پاکستانی گلوکارہ، نغمہ نگار، وکیل، اور سماجی کارکن تھیں جنہوں نے موسیقی کی صنعت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔نازیہ حسن 3 اپریل 1965 کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں،اور کراچی اور لندن میں پرورش پائی۔ وہ ایک تاجر بصیر حسن اور ایک سرگرم سماجی کارکن منیزہ بصیر کی بیٹی تھیں۔ وہ گلوکار زوہیب حسن اور زارا حسن کی بہن تھیں۔ ان کی زندگی کا  سفر کامیابی، عروج، عالمی پہچان اور ایک المناک انجام پر ختم ہوا۔

نازیہ کا موسیقی کے سفر کا آغازبہت کم عمر میں ہوا۔ 15 سال کی عمر میں ان کی ملاقات بچپن کی آئیڈیل اداکارہ زینت امان اور ان کی والدہ سے ہوئی۔ اسی سلسلے کے ذریعے ان کا تعارف ہندوستانی فلم ڈائریکٹر فیروز خان سے ہوا جنہوں نے ان کی آواز سے متاثر ہو کر اپنی فلم کے لیے میوزک کمپوزر بیڈو سے ان کی ملاقات کروائی۔

نازیہ حسن نے اپنی گلوکاری کا آغاز 1980 میں ہندوستانی فلم قربانی کے گانے "آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے" کے ساتھ کیا۔ انور بخش جوش ملیح آبادی کا لکھا ہوا گانا "آپ جیسا کوئی" پورے جنوبی ایشیا میں راتوں رات مشہور ہو گیا اور نازیہ کو خوب پزئرائی ملی اور وہ رات و رات سٹار ڈم تک پہنچ گئیں۔  اور 1981 میں 15 سال کی عمر میں بہترین خاتون پلے بیک سنگر کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ وہ یہ ایوارڈ جیتنے والی پہلی پاکستانی اور سب سے کم عمر گلوکارہ تھیں۔

 نازیہ کے بھائی زوہیب حسن اس کے موسیقی کے سفر میں شامل ہوئے اور انہوں نے مل کر "نازیہ اور زوہیب" کی جوڑی بنائی۔انکا  پہلا البم، ڈسکو دیوانے، 1981 میں ریلیز ہوا، اور دنیا بھر کے چودہ ممالک کے میوزک چارٹ کا حصہ رہا  اور اس وقت سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشین پاپ ریکارڈ بن گیا۔ اوربرطانوی چارٹ میں جگہ بنانے والے پہلے پاکستانی گلوکار بن گئے۔

نازیہ حسن نے 1982 میں بوم بوم البمز کے ساتھ فالو اپ کیا، جس کا کچھ حصہ فلم اسٹار (1982)، 1984 میں ینگ ترنگ اور 1987 میں ہاٹ لائن کے ساؤنڈ ٹریک کے طور پر استعمال ہوا۔  وہ اپنے بھائی کے ساتھ، وہ کئی ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی نظر آئیں۔ 1988 میں وہ سنگ سنگ میں موسیقار سہیل رانا کے ساتھ نظر آئیں۔ انہوں نے پہلے پاپ میوزک اسٹیج شو، میوزک '89 کی میزبانی بھی کی، جسے شعیب منصور نے تیار کیا تھا۔ ان کی کامیابی نے پاکستانی پاپ میوزک سین کو تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

15 سال پر محیط اپنے گلوکاری کے کیریئر کے دوران، حسن پاکستان کی مقبول ترین شخصیات میں سے ایک بن گئیں۔ انکو پاکستان کے سول ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ گانے کے علاوہ، وہ انسان دوستی کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہیں، اور 1991 میں انہیں یونیسیف نے اپنا ثقافتی سفیر مقرر کیا تھا۔ 

نازیہ کی صلاحیتوں کا دائرہ موسیقی سے بھی آگے بڑھ گیا۔ اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کی اور بعد میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے اپنے آپ کو سماجی کاموں کے لیے وقف کر دیا، یونیسیف کے ساتھ کام کیا اور منشیات کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی۔

نازیہ حسن نے 30 مارچ 1995 کو کراچی کے تاجر مرزا اشتیاق بیگ سے شادی کی۔ یہ ایک ارینج میرج تھی۔ ان کی شادی مسائل اور مشکلات سے بھری ہوئی تھی، اور  اپنی موت سے 3 ماہ قبل جوڑے کے درمیان طلاق ہو گئی۔اشتیاق اور نازیہ حسن کا ایک بیٹا آریز حسن تھا جو 7 اپریل 1997 کو پیدا ہوا۔
اپنی بے پناہ کامیابی کے باوجود، نازیہ کی زندگی پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے کٹ گئی۔ نازیہ حسن 13 اگست 2000 کو 35 سال کی عمر میں لندن میں پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث انتقال کر گئیں۔ تین دن قبل ان کی حالت بگڑنے پر انہیں نارتھ لندن ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا تھا۔  مرنے سے ایک دن پہلے ہلکی ان کی صحت میں بہتری  کے آثار دکھائی دیئے  اور یہ خیال کیا گیا کہ ڈاکٹر اسے جلد گھر جانے کی اجازت دیں گے۔

اگلے دن، ان کی والدہ منیزہ کو اسپتال بلایا گیا جہاں ان کی بیٹی کو صبح 9:15 کے قریب کھانسی شروع ہوگئی تھی۔ وہ پلمونری ایمبولزم ہونے کے چند ہی منٹوں میں انتقال کر گئیں۔ ہینڈن مسجد میں نماز جنازہ کے بعد، نازیہ کو 5 ستمبر 2000 کو ہینڈن قبرستان، لندن کے مسلم سیکشن میں اسلامی رسومات کے مطابق دفن کیا گیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ ایک انٹرویو میں۔ ان کی بے وقت موت نے میوزک انڈسٹری اور لاکھوں مداحوں کے دلوں میں ایک خلا چھوڑ دیا۔

اگرچہ وہ  بہت جلد چلی گئیں پر انکی آواز  دنیا بھر میں سامعین کے کانوں میں  گونجتی رہے گی۔ ان کے گانے، ان کا انداز، اور اس کے انسان دوست جذبے نے فنکاروں اور مداحوں کی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ ایک مشہور شخصیت، ہنر، عزم اور ہمدردی کی علامت بنی رہے گی۔

 









 


Post a Comment

0 Comments