مالاکنڈ میں طالبہ کے ساتھ پروفیسر کی حراسانی کا واقعہ۔ اس سے پہلے بھی بہت سے تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ آئیں مل کر آواز اٹھائیں کہ خدارا اس ملک کا تعلیمی نظام بدلیں۔ یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں اساتذہ کو سیشنل اور وائیوا کے نام پر اتنے اختیار دیئے جاتے ہیں جنہیں کچھ خبیث قسم کے اساتذہ زاتی اور گندے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ رشوت مانگتے ہیں اورلڑکیوں کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں ۔ سینکڑوں طلباو طالبات ان ناجائز اختیارات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اگر کوئی انکے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو پھر پورا استاد مافیا انکے خلاف کھڑا ہو جات ہے۔ کیا ہم یہ سسٹم تبدیل نہیں کر سکتے؟ کیا غیر جانبدار امتحانی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ کب تک ہماری بچیاں ان جیسے خبیثوں کے گندے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی رہیں گی۔ ہمارے ساتھ آواز اٹھائیں تاکہ حکومت اس بارے میں سوچے اور ایسا نظام قائم ہو جہاں کسی بھی بچی کو پاس ہونے کے لئے اپنی عزت کی قربانی نہ دینی پڑے۔ اور ایسی قانون سازی بھی ہونی چاہیے کہ آئندہ کوئی بھی استاد وائیوا کے نام پر کسی کا بھی استحصال نہ کر سکے۔
مسائل کی اصل وجہ
اکثریونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں اساتذہ کو ایسے اختیار دیئے جاتے ہیں کہ انکے پاس کچھ نمبروں کا اختیار ہوتا ہے جو کہ فائنل رزلٹ میں شامل کر کے رزلٹ بنایا جاتا ہے اور ان نمبروں کو لے کر طلباوطالبات کا بہت نقصان کیا جاتا ہے اور استحصال کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر بہت سے واقعات موجود ہیں۔
زبانی امتحان یعنی وائیوا
اکثر مضامین میں کچھ نمبروں کا زبانی امتحان لیا جاتا ہے جسے وائیوا بھی کہا جاتا ہے جس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہوتی۔ جو استاد کا منظورنظر ہوگا وہ اچھے نمبر لے کر پاس ہو جائے گا۔ اور پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال ان نمبروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ خدارا اسکا نظام بدلیں وگرنہ ہمارے بچے اساتذہ کے ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے اور زہنی مریض بنتے رہیں گے۔
مسائل کا حل؟
ان مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ جس میں ہر طلباوطالبات کو اپنی قابلیت کی بنا پر آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں۔ اور کسی پروفیسر کے پاس ایسا اختیار نہ ہو کہ وہ کسی کا مستقبل یا رزلٹ خراب کر سکے۔
عدالت یا فورم؟
اگر کوئی استاد کسی بچے کا ساتھ پرسنل ہوتا ہے یا اسکے مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کوئی ایسا فورم یا عدالت یا قانون ہونا چاہیے جہاں وہ انصاف کی توقع کر سکے۔
یہ سب معاملات وقت کی اہم ضرورت ہیں وگرنہ ہمارے بچے ور بچیاں گندے اساتذہ کی زاتی پسند نا پسند کی پھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
0 Comments