وفا کیا ہے؟ وفا اور بے وفائی دونوں انسانی رشتوں کی مضبوطی یا کمزوری کی علامت ہیں۔ وفا کا مطلب ہے کسی سے کیے گئے وعدے یا عہد پر قائم رہنا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ یہ اعتماد، محبت اور ایثار کی عکاسی کرتی ہے۔ وفادار شخص دوسروں کے ساتھ اپنے تعلق کو مقدس سمجھتا ہے اور ہر حال میں اسے نبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وفا نہ صرف رومانوی رشتوں بلکہ دوستی، خاندانی تعلقات اور معاشرتی رابطوں میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ وہ جوڑ ہے جو رشتوں کو مضبوطی سے باندھے رکھتا ہے۔
بے وفائی کیا ہے؟ دوسری طرف، بے وفائی وہ رویہ ہے جو اعتماد کو توڑتا ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالتا ہے۔ بے وفائی کا مطلب ہے وعدوں کو توڑنا، دھوکہ دینا یا کسی کے ساتھ کیے گئے عہد سے منہ موڑ لینا۔ یہ نہ صرف دوسرے شخص کے دل کو توڑتا ہے بلکہ خود بے وفا شخص کے اندر بھی احساس جرم اور بے چینی پیدا کرتا ہے۔ بے وفائی کی وجہ سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور محبت کی جگہ نفرت لے لیتی ہے۔
وفا انسانیت کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے، جبکہ بے وفائی ایک ایسا زہر ہے جو رشتوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ وفا کے راستے پر چلنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں حقیقی سکون اور خوشی کی طرف لے جاتا ہے۔
اے ستم گر بے وفا یہ بے وفائی کب تلک کشن سنگھ عارف |
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید |
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں خیر تم نے تو بے وفائی کی فراق گورکھپوری |
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی نصیر ترابی |
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو خواجہ میر درد |
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی احمد فراز |
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں |
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ فراق گورکھپوری |
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا احمد ندیم قاسمی |
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں داغؔ دہلوی |
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں |
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی بشیر بدر |
عاشقی میں بہت ضروری ہے بے وفائی کبھی کبھی کرنا بشیر بدر |
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے |
0 Comments