پاپا میری سالگرہ پر آو گے ناں، سوربھ راجپوت بیٹی کی بات کو رد نہیں کر پایا۔ سوربھ راجپوت کئی سالوں سے لندن میں ایک بیکری میں کام کرتا
تھا۔ اسکی بیوی مسکان اسکی بیٹی کے ساتھ بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں رہتی تھی۔ بیٹی کی فرمائش وہ رد نہیں کر پایا اور اس نے بھارت
جانے کا پلان کیا اور 24 فروری کی سیٹ بک کروا لی اور اپنی بیوی مسکان اور بیٹی کو اپنی آمد کا بتا دیا ۔ مسکان کے ساتھ اسکے تعلقات کچھ سالوں سے
تناو کا شکار تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس بر مسکان کی تمام شکایتیں دور کر دے گا مگر اسے نہی پتہ تھاکہ اسکا یہ سفر آخری ہوگا اور وہ ایک ایسی سازش کا
شکار ہونے والا ہے جو اسے موت کی وادی میں لے جائے گی۔
سوربھ راجپوت مرچنگ نیوی میں ملازمت کرتا تھا ۔مسکان سے اسکی ملاقات محبت میں بدل گئی۔ پھر سوربھ نیوی چھوڑ کر آ گیا اور مسکان
سےاس کی محبت عروج پر تھی مگر انکے گھر والے انکی شادی پر راضی نہیں تھے ۔ پھر 2016 میں انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا اور خاندان کی
خواہشات کے خلاف جاتے ہوئے شادی کر لیاور شادی کے بعدالگ سے کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔مگر شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی انکے
تعلقات میں تناو آنے لگا اور اختلافات بڑھنے لگے۔ اسی دوران انکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور سوربھ روزگار کے سلسلہ میں لندن چلا گیا۔اور مسکان اپنی
بیٹی کے ساتھ اندرا نگر میں اکیلے رہنے لگی۔
جب ایک عورت اپنے شوہر سے ناراض ہو اور دور بھی ہو اور اکیلے رہ رہی ہو تو اسکے بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مسکان اور ساحل بچپن میں
کلاس فیلو تھے۔ اور کئی سالوں بعد 2019 میں سکول کے پرانے سٹودنٹس کے واٹس ایپ گروپ سے اسکا رابطہ ساحل شکلا کے ساتھ ہوا جو
دوستی کے اور پھر جلد ہی افیئر میں بدل گیا ۔ساحل مبینہ طور پر ممنوعہ ادویات لیتا تھا، جسے اس نے مسکان کے ساتھ بھی شیئر کیا تھا۔ منشیات کے
استعمال نے انہیں مزید قریب کر دیا۔ سوربھ لندن چلا گیا تھا تواس کی غیر موجودگی میں ساحل اور مسکان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا اور انکے
رشتےمیں شدت آنے لگی اور انہوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ مگر سب سے بڑی رکاوٹ سوربھ تھا۔ تب ان دونوں نے سوربھ کو راستے سے
ہٹانے کافیصلہ کیااور اس کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
سوربھ کے بھارت آنے کے اگلے ہی دن انہوں نے 25 فروری کو سوربھ راجپوت کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ منصوبے کے مطابق مسکان نے
کھانے میں سکون آور دوائیں ملائیں تاکہ سوربھ بے ہوش ہو جائے مگر دواوں نے کوئی خاص اثر نہیں کیا تو انہوں نے منصوبے پر عمل درآمد
روک دیا۔
مسکان اور ساحل نے 4 مارچ کو دوبارہ سوربھ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ مسکان نے قتل سے پہلے ہی چھ سالہ بچی کو اس کی دادی کے گھر بھیج دیا تھا۔
یہ منصوبہ 3 مارچ کو اس وقت شروع ہوا جب سوربھ اپنی ماں رینوسے مل کر آ رہا تھا۔ اور وہاں سے اپنی ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی 'لوکی کے کوفتے'
کی ڈش لے کرتین مارچ کی شام گھر واپس آیا۔ اس لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسکان نے کھانا دوبارہ گرم کیا اور کھانے میں سکون آور دوائیاں ملا
دیں۔ جیسے ہی سوربھ بے ہوش ہو گیا، مسکان نے ساحل کو کال کر کے اندرا نگر اپنے گھر بلایا۔ ایس پی (سٹی) آیوش وکرم سنگھ نے بتایا کہ مسکان
سوربھ کے سینے پر بیٹھ گئی اور اس نے چاقو سے اسکے دل پر تین وار کئے اس کے بعد دونوں نے بے بس سوربھ پر چاقو کے وار کرتے رہے اور
یہاں تک کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اس کے بعد، دونوں نے اس کے جسم کے 15 ٹکڑے کیے، انہیں ایک ڈرم میں چھپا دیا اور
اس میں سیمنٹ بھر دیا۔ابتدائی منصوبہ جسم کے اعضاء کو کسی ویران جگہ پر ٹھکانے لگانے کا تھا، لیکن دونوں نے آخر کار اسے سیمنٹ اور ریت
سے بھر کر ایک بڑے نیلے ڈرم کے اندر رکھنے کا فیصلہ کیا۔اور اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے ہماچل پردیش روانہ ہوگئے۔اور دھوکہ دینے کے لئے
وہ سوربھ کے موبائل سے اسکے والدین کو میسج بھی کرتی رہی مگر شائید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
مسکان کے والدین کو کسی طرح اس واردات کا پتہ چل گیا۔ انکے بقول مسکان کی بیٹی نے انکو بتایا کہ پاپا ڈرم میں ہیں۔ مسکان کے والدین 18 مارچ کو
پولیس اسٹیشن آئے اور سوربھ راجپوت کے قتل کے بارے میں بتایا اور پولیس نے لاش نیلے ڈرم سے برآمد کرلی۔ سیمنٹ اور ریت بھرنے کی وجہ
سے لاش کے اعضا پتھر بن چکے تھے۔
پولیس نے مسکا ن ستوگی اور ساحل شکلا کو گرفتار کرلیا اور عدالت نے دونوں ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا ہے۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) آیوش وکرم سنگھ نے کہا، سوربھ راجپوت کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ مسکان رستوگی کے والدین سوربھ کے
قتل
کے بارے میں 18 مارچ سے پہلے ہی بخوبی واقف تھے، جب پولیس کو سرکاری طور
پر اس جرم کی اطلاع دی گئی۔
سوربھ کی ماں رینو دیوی نے قتل کے حوالے
سے مسکان کے والدین کے لاعلمی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ان پر پولیس کو
گمراہ کرنے
کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔
رینو دیوی نے بدھ کو الزام
لگایا کہ "سچ یہ ہے کہ مسکان کی ماں کو اس جرم کے بارے میں (18 مارچ سے
پہلے) علم تھا۔ وہ صرف خود کو قانونی
کارروائی سے بچانے کے لیے پولیس
اسٹیشن گئی تھیں۔
0 Comments