Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اکبر الہ آبادی کی آپ بیتی، اکبر الہ آبدی کی شاعری، اکبر الہ آبادی کی مشہور غزلیں

 

 

سید اکبر حسین رضوی، جنہیں اکبر الہ آبادی کے نام سے جانا جاتا ہے  ایک ہندوستانی شاعر تھے 16  نومبر 1846 کومتحدہ ہندوستان میں  ضلع الہ آباد کے قصبے باڑہ میں سیدوں کے ایک  تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے جو اصل میں فارس سے سپاہی کے طور پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کے دادا کا نام سید فضل محمد تھا جن  تین بیٹے واصل علی، وارث علی اور تفضل الحسین  تھے۔ اکبر کے والد، مولوی تفضل حسین نے نائب تحصیلدار تھے جبکہ انک کے چچا وارث علی  تحصیلدار تھے، اور ان کی والدہ کا تعلق بہار کے گیا ضلع کے جگدیش پور گاؤں کے ایک زمیندار خاندان سے تھا۔


اکبر نے عربی، فارسی اور ریاضی کی ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد سے حاصل کی۔ 1855 میں، ان کی والدہ الہ آباد چلی گئیں اور محلہ چوک میں آباد ہو گئیں۔ اکبر کو 1856 میں انگریزی تعلیم کے لیے جمنا مشن اسکول میں داخل کرایا گیا، لیکن انہوں نے 1859 میں انہوں نے سکول چھوڑ دیا مگر انگریزی سیکھنا جاری رکھا۔


اسکول چھوڑنے پر اکبر نے ریلوے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور کلرک ملازمت شروع کی اور سروس میں رہتے ہوئے، انہوں نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور بیرسٹر بن گئے  اور اس کے بعد تحصیلدار اور  سیشن کورٹ کے جج کے طور پر کام کیا۔ عدالتی خدمات میں انکی خدمات کے پیش نضر انہیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔

اکبر کی پہلی شادی 15 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ ان کی بیوی کا نام خدیجہ خاتون تھا جو ان سے چار سال بڑی تھیں۔ یہ شادی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے نذیر حسین اور عابد حسین  پیدا ہوئے مگر ان کے حالات اپنی بیوی کے ساتھ بہتر نہیں ہو گکے۔ پھر اکبرنے خدیہ خاتون کو طلاق دے دی ۔ طلاق کے بعد اکبر نے اپنے بیٹوں  کی سرپرستی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ مالی طورپر پریشان رہے اور زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ انکی گذر اوقات کے لئے اکبر انکو ہر ماہ چالیس روپے بھجواتے تھے۔

 
اکبرنے دوسری شادی فاطمہ صغرا کے ساتھ کی جو کافی کامیاب رہی۔ اس شادی سے ان کے  دو بیٹے عشرت حسین اور ہاشم حسین پیدا ہوئے۔ عشرت کو وکیل بننے کے لیے تین سال کے لیے انگلینڈ بھیجا گیا مگروہ وہاں جا کر واپس نہیں آیا اور نہ اس نے تعلیم مکمل کی۔

چھوٹے بیٹے ہاشم  حسین نے اپنے اکبر الہ آبادی کی بہت خدمت کی اور 1921 میں انکی موت تک ان کے ساتھ رہا۔

اکبر 1905 میں ریٹائر ہوئے اور الہ آباد میں رہنے لگے۔ ان کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو بخار سے ہوا اور الہ آباد کے ہمت گنج محلے میں دفن ہوئے۔


اکبر الہ آبادی اردو ادب کے ایک منفرد شاعر تھے، جن کی شاعری میں طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ گہری معاشرتی اور سیاسی بصیرت بھی ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں مغربی تہذیب کے اثرات، معاشرتی ناہمواریوں اور سیاسی حالات پر طنز و مزاح کا عنصر نمایاں ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری میں سیاسی حالات پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے انگریزوں کی پالیسیوں اور ہندوستانی سیاستدانوں کی کمزوریوں پر طنز کیا۔ اکبر الہ آبادی نے مغربی تہذیب کے اثرات پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔

اکبر الہ آبادی کی شاعری آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی ان کے زمانے میں تھی۔ ان کی شاعری میں موجود طنز و مزاح اور معاشرتی تنقید آج بھی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

 

انکی مشہور غزلوں میں درجہ زیل ہیں

ہنگامہ ہے کیوں برپا

تم ایک گورکھ دھندہ ہو

 

 

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments