ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ، تو نہیں ڈالا، چوری، تو نہیں کی ہے
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
اس مے سے نہیں مطلب، دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے
ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
سورج میں لگے دھبہ فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے
اکبر الہ آبادی
0 Comments