آجکل کے بچے جو بزنس کلاس اے سی بسوں میں سفر کرتے ہیں انہیں کیا خبر کہ اج سے تین چار دہائی قبل پاکستانی کیسی بسوں اور کس طرح کی تکلیف دہ سیٹوں پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے۔ اگر آج کی اعلی درجے کی پرتعیش بسوں کی بات کی جائے تو اسکا سہرہ موٹر وے کو جاتا ہے کیونکہ 1998 میں موٹر وے کی تعمیر کے ساتھ ہی پاکستان میں اعلی درجے کی سفری سہولیات کا آغاز ہوا اور آج عوام انتہائی آرام دہ سفر کا مزہ لے رہی ہے۔
ستر کی دہائی میں عوام کو سستی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے گورنمنٹ بس سروس جسے جی ٹی ایس بھی کہا جاتا ہے شروع کی۔ ان بسوں میں سفر کا کرایہ دوسری بسوں کی نسبت کم ہوتا تھا اور شہروں کی شاندار لوکیشن پر ان کے اڈے قائم کئے۔ ستر اور اسی کی دہائی دیکھنے والوں نے ان لال رنگ کی بسوں میں ضرور سفر کیا ہوگا۔ لال رنگ کی یہ اسوزو اور بیڈ فورڈ بس معیاری اور سستے سفر کے طور پر عوام کے لئے شروع کی گئی تھی اور کئی دہائیوں تک چلتی رہی ۔ اور اس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملا تھا۔حقیقی طور پر یہ بس سروس پرائیوٹ بس اڈوں کو ٹکر بھی دیتی تھیں کیونکہ جی ٹی ایس کے اڈے شہر کے مرکز میں موجود تھے اور وہاں پہنچ بھی آسان تھی اور اسکا کرایہ بھی کم تھا. یہ بسیں نہ صرف ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر جاتی تھیں بلکہ بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سستی سہولت بھی فراہم کرتی تھی۔
اس زمانے میں پرائیوٹ اڈوں پر زیادہ تر بیڈ فورڈ کی بسیں چلتی تھیں جنہیں راکٹ بھی کہا جاتا تھا اور انکے پیچھے لکھا ہوتا تھا رفتار 65 میل فی گھنٹہ۔ ان بسوں کو رنگ برنگے پردوں اور لائٹوں سے سجایا جاتا تھا اور انکی باڈی پر نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔انکا ہارن کان کے پردے پھاڑنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔ ان بسوں کے علاوہ فورڈ کی ویگن بھی دستیاب ہوتی تھی۔ جس میں بارہ افراد کی گنجائش والی ویگن میں بیس بیس سواریاں ٹھونسی جاتی تھیں۔ ایک بات مشترک تھی کہ پرائیوٹ اور گورنمنٹ دونوں بسوں کی سیٹیں بہت سخت اور تھاک دینے والی ہوتی تھیں اور شائید ان دنوں انسانی جسم کو آرام دینے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
اے سی گاڑیاں اس وقت نہیں تھیں تو ہر مسافر کی کوشش ہوتی تھی کہ اسے کھڑکی والی سیٹ ملے۔اور اس بات پر جھگڑے بھی ہوتے تھے۔
گاڑیوں کے کنڈکٹربھی بہت سخت مزاج ہوتے تھے اور محسوس ہوتا تھا کہ ابھی لڑپڑیں گے۔
غیر معیاری بسوں کے مقابلے میں جی ٹی ایس ہر لحاظ سے بہتر تھی۔ لیکن پھر وہی ہوا۔ بدعنوانی نے اپنا راستہ بنایا اور آہستہ آہستہ بسوں کے پرزے ختم ہونا شروع ہو گئے اور زیادہ تر بسیں اڈوں پر کھڑی کر دی گئیں۔ پرائیوٹ کمپنیوں کی کوششوں سے آخر کار نوے کی دہائی میں یہ بس سروس ختم کر دی گئی۔ اور ملازمیں کا کیا بنا کچھ یاد نہیں بس اس لا ل بس کے ساتھ بچپن کی بہت سی یادیں جڑی ہیں۔
0 Comments