یقینی طور پر جلیانوالہ باغ کا واقعہ برصغیر کی تاریخ آزادی کا ایک نہایت اہم اور دلخراش باب ہے۔ ذیل میں اس واقعے پر ایک مکمل تفصیلی مضمون پیش کیا جا رہا ہے، جس میں اس کی تاریخ، وجوہات، قتل عام، نتائج اور تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جلیانوالہ باغ قتل عام – ایک تاریخی المیہ
جلیانوالہ باغ قتل عام برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ 13 اپریل 1919 کو پیش آیا، جب برطانوی سامراج نے نہتے ہندوستانی عوام پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ اس سانحے نے نہ صرف ہندوستانیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی برطانوی راج کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ اس واقعے میں صرف مذاہب سے ہٹ کر صرف ہندوستانی شہید کئے گئے تھے۔
تاریخی پس منظر
پہلی جنگِ عظیم (1914-1918) کے بعد ہندوستان میں سیاسی بے چینی عروج پر تھی۔ برطانوی حکومت نے جنگ کے دوران ہندوستان سے بھرپور مدد حاصل کی، لیکن بدلے میں ہندوستانیوں کو آزادی یا خود اختیاری کا کوئی وعدہ پورا نہ کیا گیا۔ اس کے برعکس، 1919 میں رولیٹ ایکٹ نافذ کر دیا گیا، جس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال سکتی تھی۔ یہ ایکٹ ہندوستانی عوام کے لیے غلامی کی زنجیروں کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف تھا۔
اپریل 1919 – جلیانوالہ باغ کا دن
یہ دن بیساکھی کا تہوار تھا، جو پنجاب کا ایک اہم مذہبی اور ثقافتی دن ہے۔ ہزاروں افراد، جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے، امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تاکہ پرامن طریقے سے رولیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کر سکیں اور اپنے گرفتار رہنماؤں (ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال) کی رہائی کا مطالبہ کر سکیں۔
اسی دوران بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ باغ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بغیر کسی انتباہ کے، جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ نہتے عوام پر گولی چلا دی جائے۔ 10 منٹ تک مسلسل فائرنگ کی گئی۔ لوگوں کے پاس نہ بھاگنے کا راستہ تھا، نہ بچاؤ کا کوئی ذریعہ۔
قتل عام کی ہولناکی
فائرنگ 10 منٹ تک جاری رہی۔
اندازاً 1650 سے زائد گولیاں چلائی گئیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 379 افراد ہلاک اور 1000 سے زائد زخمی ہوئے، لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتیں 1000 سے زیادہ تھیں۔
کئی افراد جان بچانے کے لیے قریبی کنویں میں کود گئے، جس سے وہ بھی دم گھٹنے یا ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے۔
نتائج اور اثرات
جلیانوالہ باغ کا قتل عام ہندوستانی عوام کے دلوں پر گہرا زخم بن کر رہ گیا۔ اس واقعے نے اعتدال پسند اور باغی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ عوام میں غم و غصہ بھڑک اٹھا، اور برطانوی حکومت کے خلاف جذبات مزید شدت اختیار کر گئے۔
مہاتما گاندھی کی تحریک
مہاتما گاندھی نے اس واقعے کو ظلم کی بدترین مثال قرار دیا اور پہلی بار عدم تعاون تحریک (Non-Cooperation Movement) کا آغاز کیا، جس میں لاکھوں ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت سے بغاوت کی راہ اپنائی۔
برطانوی حکومت پر عالمی دباؤ
اس قتل عام کی خبر دنیا بھر میں پھیلی، اور برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ میں بھی بہت سے رہنماؤں نے جنرل ڈائر کی کارروائی کو "وحشیانہ" قرار دیا۔
ہنٹر کمیشن
واقعے کے بعد برطانوی حکومت نے ہنٹر کمیشن تشکیل دیا، جس نے جنرل ڈائر سے تفتیش کی، لیکن اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی گئی۔ بعد میں جنرل ڈائر کو معزول تو کیا گیا، لیکن برطانوی عوام نے اسے "ہیرو" قرار دے کر اعزازات سے نوازا، جو مزید ہندوستانی عوام کے لیے زخم پر نمک کے مترادف تھا۔
قلندری اور انقلابی تحریکوں کا فروغ
اس واقعے کے بعد نوجوان نسل میں برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کے جذبات پروان چڑھے۔ بھگت سنگھ جیسے انقلابی نوجوان اسی قتل عام سے متاثر ہو کر آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے۔
کرنل ریجنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر، سی بی بنگال آرمی میں ایک برطانوی فوجی افسر تھے۔ ان کا فوجی کیریئر باقاعدہ برطانوی فوج میں شروع ہوا، لیکن وہ جلد ہی ہندوستان کی صدارتی فوجوں میں منتقل ہو گئے۔
ا بریگیڈیئر جنرل کے طور پر، وہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے ذمہ دار تھے جو 13 اپریل 1919 کو امرتسر (صوبہ پنجاب میں) میں ہوا تھا۔ لوگوں کے ایک بڑے مجمع پر گولی چلانے کا حکم دینے کی وجہ سے اسے "امرتسر کا قصائی" کہا جاتا ہے۔ سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں کم از کم 379 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک تھی۔ ڈائر نے بعد میں استعفیٰ دے دیا۔ برطانیہ اور ہندوستان دونوں میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کی قیادت کرنے پر ان کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، لیکن برطانوی راج سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے انکے موقف کی حمایت بھی کی۔
جلیانوالی باغ میں قتل عام کرنے والے جنرل ڈائرعبرت ناک موت کا شکار ہوا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسے اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے قدرت نے سزا دی۔ جنرل ڈائر اپنی زندگی کے آخری سالوں میں فالج کے کئی دورے پڑے جسکی وجہ سے ناصرف وہ جسمانی طور پر معذور ہو گیا بلکہ اسکی قوت سماعت بھی ختم ہو گئی اور معاشرے اور خاندان سے الگ تھلگ ہو گیا۔ جنرل ڈائر 23 جولائی 1927 کو دماغی ہیمرج اور آرٹیروسکلروسیس کی وجہ سے جہنم واصل ہو گیا۔ مرتے ہوئے جنرل ڈائر نے کہا بہت سے لوگ جو انڈیا کے حالت جانتے تھے کہتے ہیں کہ میں نے ٹھیک کیا... لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے غلط کیا۔ میں صرف مرنا چاہتا ہوں اور اپنے خالق سے جاننا چاہتا ہوں کہ میں نے صحیح کیا یا غلط۔؟
جلیانوالہ باغ ایک تاریخی ورثہ، تزئین و آرائش
جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہندوستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس نے برطانوی راج کی ظالمانہ فطرت کو بے نقاب کیا۔ اس قتل عام نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو نئی جہت دی بلکہ برطانوی سامراج کے زوال کی بنیاد بھی رکھی۔
جلیانوالہ باغ، جو 13 اپریل 1919 کے المناک قتل عام کا مقام ہے، حالیہ برسوں میں نمایاں تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس تاریخی یادگار کی تزئین و آرائش کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو اس کی تاریخی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔
سال 2021 کے وسط میں، جلیانوالہ باغ کی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہوا۔ اس منصوبے کے تحت، باغ میں میوزیم اور گیلریاں قائم کی گئی ہیں، اور 13 اپریل 1919 کے واقعات کو ظاہر کرنے کے لیے روزانہ آواز اور روشنی پر مبنی شو پیش کیا جاتا ہے ہے۔ یادگار میں ایک تنگ راہداری ہے جس کی دیواروں کو مجسموں سے مزین کیا گیا ہے، جو اس دن کی ہولناکی کو بیان کرتی ہیں۔ اس راہداری کے ذریعے بریگیڈیئر جنرل آر ایچ ڈائر کی قیادت میں برطانوی فوجی باغ میں داخل ہوئے تھے۔
0 Comments