Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

شکیل بدایونی کی زندگی ، فن اور لازوال گیت

Shakeel-badayoni-bigraphy
 

شکیل بدایونی: زندگی، فن اور لازوال نغمے

شکیل بدایونی کا اصل نام شکیل احمد تھا اور وہ 3 اگست 1916 کو بدایوں، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، محمد جمال احمد سوختہ قادری، ایک مذہبی عالم تھے اور چاہتے تھے کہ شکیل بھی ایک کامیاب کیریئر اپنائیں۔ اسی لیے انہوں نے گھر پر ہی شکیل کے لیے عربی، اردو، فارسی اور ہندی کے اساتذہ کا انتظام کیا۔

شکیل کی شاعری میں دلچسپی موروثی نہیں تھی۔ ان کے دور کے ایک مذہبی شاعر، ضیاء القادری بدایونی، سے وہ متاثر ضرور ہوئے اور بدایوں کے ادبی ماحول نے بھی ان کی شاعری کی طرف رغبت بڑھائی۔ 1936 میں جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ان کی شعری صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ وہ یونیورسٹی اور بین الکلیاتی مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے اور اکثر انعام جیتتے تھے۔ علی گڑھ میں انہوں نے حکیم عبد الوحید 'اشک' بجنوری سے باقاعدہ شاعری کی تربیت بھی حاصل کی۔

1942 میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، شکیل نے دہلی میں محکمہ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ لیکن ان کا شعری ذوق برقرار رہا اور وہ دہلی کے آس پاس ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔

1944 میں، شکیل نے اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور ممبئی چلے گئے تاکہ فلمی نغمہ نگاری میں اپنا مستقبل بنا سکیں۔ ممبئی میں ان کی ملاقات معروف فلمساز اے آر کاردار اور موسیقار نوشاد سے ہوئی۔ نوشاد نے ان سے اپنی شعری صلاحیت کو ایک مصرعے میں بیان کرنے کو کہا، جس پر شکیل نے کہا:

؎ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے

ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے

نوشاد اس مصرعے سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے فورا ہی شکیل کو کاردار کی فلم 'درد' (1947) کے لیے سائن کر لیا۔ اس فلم کے نغمے بے حد مقبول ہوئے اور شکیل بدایونی کا بطور نغمہ نگار ایک کامیاب سفر شروع ہوا۔

'درد' کی کامیابی کے بعد، شکیل کا نوشاد کے ساتھ ایک طویل اور کامیاب اشتراک رہا۔ ان دونوں نے مل کر کئی لازوال فلموں کے لیے یادگار نغمے تخلیق کیے، جن میں 'بیجو باورا' (1952)، 'مدر انڈیا' (1957)، اور 'مغل اعظم' (1960) سرفہرست ہیں۔ نوشاد کے علاوہ، شکیل نے ہیمنت کمار اور روی جیسے دیگر نامور موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔

شکیل بدایونی کی شاعری میں محبت، رومانس اور انسانی جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے الفاظ سادہ لیکن گہرے ہوتے تھے جو سیدھے دل پر اثر کرتے تھے۔ انہوں نے غزلیں اور فلمی نغمے دونوں لکھے اور ہر صنف میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے مشہور نغموں میں "کہیں دیپ جلے کہیں دل"، "حسن والے تیرا جواب نہیں"، "چودھویں کا چاند ہو"، "پیار کیا تو ڈرنا کیا"، "مدھبن میں رادھیکا ناچے رے"، اور "میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم" شامل ہیں۔

شکیل بدایونی نے لگاتار تین فلم فیئر ایوارڈز برائے بہترین نغمہ نگار جیت کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ انہیں یہ ایوارڈز 'چودھویں کا چاند' (1960)، 'گھرانہ' (1961)، اور 'بیس سال بعد' (1962) کے لیے ملے۔

شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل 1970 کو ممبئی میں 53 سال کی عمر میں ذیابیطس کے باعث ہوا۔ انہوں نے اپنی شاعری اور لازوال نغموں کے ذریعے اردو ادب اور ہندوستانی فلمی موسیقی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آج بھی ان کے نغمے سن کر دلوں میں محبت اور جذبات کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔

ان کی یاد میں 2013 میں حکومت ہند نے ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ شکیل بدایونی بلاشبہ ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار تھے جن کا کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments